پاکستان اور سری لنکا کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ آج یعنی 16 جولائی سے گال کے میدان میں شروع ہو چکا ہے۔ دو میچوں پر مشتمل یہ سیریز آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ مقابلوں کا حصہ ہے۔
اس ٹیسٹ سے قبل سری لنکا نے آسٹریلیا کو اسی گراؤنڈ میں شکست دی ہے، جہاں پاکستان کھیلے گا۔ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں سری لنکا کے سپنرز نے میچ چوتھے دن ہی ختم کردیا تھا۔ آسٹریلیا کی مضبوط بیٹنگ لائن ایک ایسے سپنر کے سامنے چاروں خانے چت ہوئی تھی جو اپنا پہلا ٹیسٹ کھیل رہے تھے۔
30 سالہ پربتھ جے سوریا اپنے کیریئر کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے اور کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ نیا ریکارڈ بنا جائیں گے۔
بائیں ہاتھ کے سپنر نے میچ میں 12 وکٹیں لےکر نہ صرف سری لنکا کی جیت میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اپنے ملک کی طرف سے ٹیسٹ ڈیبیو پر سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بولر بن گئے۔ ان کی بولنگ کو دوسری اننگز میں کھیلنا اس قدر دشوار ہوگیا تھا کہ آسٹریلیا کو ایک اننگ سے شکست ہوگئی حالانکہ مہمان ٹیم پہلا ٹیسٹ با آسانی جیت چکی تھی۔
جے سوریا کے ساتھ دوسرے سپنرز میش مینڈس اور مہیش تھکشانا نے بھی عمدہ بولنگ کی اور کینگروز کو پویلین پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سری لنکا جو گذشتہ کئی مہینوں سے اقتصادی مشکلات کا شکار ہے اور معاشی بدحالی نے یہاں بدامنی کو فروغ دیا ہے، اس کے لیے غیر ملکی ٹیموں کی میزبانی ایک مشکل امر ہے۔
حکومت کے خلاف مسلسل مظاہروں سے پاکستانی ٹیم کا دورہ سری لنکا خطرات کا شکار ہوگیا تھا، تاہم سکیورٹی اداروں اور پاکستانی ہائی کمیشن کی یقین دہانی کے بعد اسے جاری رکھا گیا ہے، حالانکہ سیاسی حالات ابھی بھی دگرگوں ہیں اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم اب تک نو مرتبہ سری لنکا کا دورہ کرچکی ہے جن میں تین بار سیریز پاکستان اور تین مرتبہ سری لنکا کے نام رہی ہے۔
پاکستان نے 1986 میں پہلی مرتبہ عمران خان کی قیادت میں سری لنکا کا دورہ کیا تھا اور پہلا ہی ٹیسٹ توصیف احمد کی خطرناک بولنگ کی مدد سے جیت لیا تھا لیکن اگلے ہی ٹیسٹ میں میزبان ٹیم نے شکست کا بدلہ چکا دیا تھا۔
پاکستان نے دوسری مرتبہ 1994 میں سلیم ملک کی قیادت میں اس ملک کا دورہ کیا اور سیریز 0-2 سے جیت لی تھی۔ اس سیریز میں کولمبو ٹیسٹ خراب ملکی حالات کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا تھا۔
پاکستان کا تیسرا دورہ 1996 میں رمیز راجہ کی کپتانی میں ہوا اور دونوں ٹیسٹ ڈرا ہوگئے تھے۔
جون 2000 میں وسیم اکرم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم تین ٹیسٹ کھیلنے سری لنکا پہنچی اور سیریز دو ٹیسٹ میچ کی برتری سے جیت لی۔
پاکستان کا پانچواں دورہ 2006 میں انضمام الحق کی قیادت میں ہوا، جس میں محمد آصف کی شاندار بولنگ کے سبب پاکستان سیریز کا فاتح رہا۔
پاکستان کا 2009 کا دورہ ہنگامہ خیز رہا اور یونس خان کی کپتانی میں پاکستان پہلی دفعہ سیریز ہار گیا۔ دو ٹیسٹ میچوں میں شکست کی وجہ پاکستان کی خراب بیٹنگ رہی اور دورے کے بعد چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔
پاکستان نے پراسرار انداز میں پہلا ٹیسٹ ہارا تھا جب مضبوط بیٹنگ لائن محض 168 رنز کا ہدف عبور نہ کرسکی تھی۔ اس سیریز کے بعد یونس خان ٹیم سے رخصت ہوگئے تھے۔
مصباح الحق کی قیادت میں 2012 میں پاکستان نے اپنا ساتواں دورہ کیا اور پہلے ٹیسٹ کی شکست نے سیریز میزبان ٹیم کے نام کردی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصباح الحق کی قیادت میں ایک بار پھر 2014 میں پاکستانی ٹیم نے سری لنکا کا دورہ کیا لیکن دونوں ٹیسٹ میں شکست ہوگئی۔ اس سیریز میں رنگانا ہیرتھ کی بولنگ پاکستانی بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئی تھی۔
مصباح الحق نے 2015 میں پاکستان کے آخری دورہ سری لنکا میں بھی قیادت کی اور آخری سیریز 2-0 سے جیت لی۔ اس سیریز کا آخری ٹیسٹ پالی کیلے میں کھیلا گیا جو پاکستان نے جیت لیا۔ اس میچ میں پاکستان نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف 382 رنز عبور کیا۔ یہ کارنامہ یونس خان اور شان مسعود نے انجام دیا، جن کی سینچریوں نے یہ ممکن بنایا۔ دونوں نے 242 رنز کی پارٹنر شپ کرکے تاریخ میں نام لکھوا لیا۔
پاکستان اب تک سری لنکا کے خلاف 55 ٹیسٹ میچ کھیل چکا ہے، جن میں سے 23 ٹیسٹ سری لنکا میں کھیلے گئے ہیں۔ پاکستان نے آٹھ ٹیسٹ جیتے ہیں جبکہ سات میں شکست ہوئی ہے۔
پاکستان کی طرف سے یونس خان نے سری لنکا کے خلاف سب سے زیادہ 2286 رنز بنائے ہیں۔ ان کے حساب میں سب سے زیادہ آٹھ سنچریاں بھی درج ہیں جبکہ بولنگ میں سعید اجمل 66 وکٹیں لے کر سر فہرست ہیں۔
گال کی پچ کیسی ہوگی؟
ساحل سمندر پر واقع گال کا گراؤنڈ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کی پچ سپنرز کو مدد دیتی ہے اور سمندری ہوا چلنے کے باعث ریورس سوئنگ کا امکان بھی ہوتا ہے۔
سری لنکا کی ٹیم کی حالیہ کامیابی کے باعث امکان ہے کہ مینیجمنٹ سپن پچ کو ترجیح دے گی۔ جے سوریا پہلے ہی ٹیسٹ میں تباہ کن بولنگ کے باعث فتح گر بولر بن چکے ہیں۔ تاہم پاکستان کے یاسر شاہ اور نعمان علی کی موجودگی میں مہمان ٹیم کا سپن اٹیک بھی ان کے پیش نظر ہوگا۔ اگر پچ میں غیر ہموار باؤنس ہوا تو نعمان علی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
گال کے گراؤنڈ میں فیصلہ کن میچوں کا تناسب زیادہ ہے اور بارشوں کا سیزن ہونے کے باوجود گال میں میچ مکمل ہونے کا امکان ہے۔
ٹیم کمبی نیشن کیا ہو گا؟
پاکستان ٹیم مینیجمنٹ بھی سپن ٹریک کی توقع کر رہی ہے، اس لیے یقینی طور پر پاکستان دو سپنرز کے ساتھ میدان میں اترے گا، لیکن دلچسپ شمولیت محمد نواز کی ہوگی۔ فہیم اشرف کی جگہ متوقع طور پر نواز یا آغا سلمان کو کھلائے جانے کا امکان ہے۔ اس طرح پاکستان تین سپنرز کی خدمات حاصل کرے گا۔
بیٹنگ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی اور عبداللہ شفیق اور امام الحق اوپننگ جبکہ اظہر علی، بابر اعظم، فواد عالم اور محمد رضوان مڈل آرڈر سنبھالیں گے۔
محمد نواز یا آغا سلمان اور حسن علی آل راؤنڈر ہوں گے۔ بقیہ بولنگ شاہین شاہ، نعمان علی اور یاسر شاہ کے ذمہ ہوگی۔ فواد عالم کے گذشتہ میچوں میں خراب کارکردگی کے باعث سعود شکیل کو ڈیبیو کرائے جانے کا بھی امکان ہے۔
سری لنکا حتمی طور پر وہی ٹیم برقرار رکھے گا، جس نے آسٹریلیا کو شکست دی ہے۔ سری لنکا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ دنیش چندی مل واپس فارم میں آگئے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف ان کی ڈبل سنچری نے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ کپتان کرونارتنے تسلسل سے عمدہ بیٹنگ کر رہے ہیں۔
کشال مینڈس اور اینجلو میتھیوز بھی پورا ساتھ دے رہے ہیں، اس لیے میزبان ٹیم بیٹنگ میں پاکستان کو کڑی ٹکر دے گی جبکہ بولنگ میں سارا دارومدار سپنرز پر ہوگا اور پاکستانی بلے بازوں کے لیے خاصا مشکل ہوگا کہ وہ جے سوریا سمیت تمام سپنرز کا مقابلہ کرسکیں۔
پاکستان کی طرف سے فواد عالم، یاسر شاہ اور سرفراز احمد ایسے کھلاڑی ہیں جو پہلے بھی سری لنکا میں کھیل چکے ہیں جبکہ کپتان بابر اعظم سمیت دوسرے تمام کھلاڑی پہلی دفعہ سری لنکن سرزمین پر اپنے جوہر دکھائیں گے۔
آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے یہ دونوں ٹیسٹ میچ دونوں ممالک کے لیے بہت اہم ہیں۔
سری لنکا اس وقت 62 پوائنٹس کے ساتھ تیسری پوزیشن پر ہے جبکہ پاکستان چوتھی پر۔ اگر سری لنکا کی ٹیم دونوں میچ جیت جاتی ہے تو اسے فائنل تک رسائی میں آسانی ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو فائنل کے امیدواروں میں رہنے کے لیے سیریز جیتنا ہوگی۔
پاکستان کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ پریکٹس میچ میں تیسرے درجے کی ٹیم کے خلاف پاکستانی بیٹنگ اور بولنگ ناکام نظر آئی۔ اوپری درجے کے بلے باز بہتر کھیل نہ سکے اور پاکستانی بولرز سری لنکا کے تیسرے درجے کے بلے بازوں کو مشکل میں نہیں ڈال سکے۔
پاکستان مینیجمنٹ کو میچ سے قبل اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا، ورنہ گال کی غیر ہموار وکٹ پرپانچ دن کا سفر وقت سے پہلے ہی ختم ہو سکتا ہے۔