برطانوی محققین نے بچوں کو متاثر کرنے والے پراسرار ہیپاٹائٹس کیسز کے حوالے سے ایک پیش رفت رپورٹ کی ہے۔ جگر کی اس سنگین بیماری کا تعلق کرونا وائرس کے بجائے دو عام وائرسوں کے مشترکہ انفیکشن سے تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کم از کم ایک ہزار 10 ایسے ممکنہ ہیپاٹائٹس کیسز کی اطلاع دی تھی، جن میں سے 46 میں ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی اور گذشتہ برس اکتوبر تک اس سے 22 اموات بھی ہوئیں۔
اس سے پہلے قیاس کیا جارہا تھا کہ ان کیسز کے پیچھے ایڈینو وائرس کا ہاتھ ہے، لیکن سکاٹ لینڈ اور لندن میں آزادانہ اور بیک وقت کی گئی دو نئی تحقیقوں میں سائنس دانوں کو اس میں ایک اور وائرس کے ملوث ہونے کے شواہد ملے اور انہوں نے قرار دیا کہ AAV2 (ایڈینو سے وابستہ وائرس 2) نے ان بیماریوں میں اہم کردار ادا کیا اور یہ تمام مریضوں میں سے 96 فیصد میں موجود تھا۔
تاہم سائنس دانوں کے مطابق AAV2 عام طور پر بیماری کا سبب نہیں بنتا اور کسی اور ’مددگار‘ وائرس کی موجودگی کے بغیر یہ اپنی تعداد میں اضافہ نہیں کرسکتا۔
دونوں ٹیموں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یا تو AAV2 اور ایک ایڈینو وائرس، یا چند کیسز میں ہرپس وائرس HHV6 کے ساتھ مشترکہ انفیکشن، جگر کی اس شدید بیماری کی وجہ بنا۔
سکاٹ لینڈ میں ہونے والی تحقیق کی قیادت کرنے والی یونیورسٹی آف گلاسگو کی متعدی بیماری کی پروفیسر ایما تھامسن نے ایک بیان میں کہا: ’ AAV2وائرس کی موجودگی بچوں میں نامعلوم ہیپاٹائٹس سے منسلک ہے۔‘
لیکن انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ یہ ابھی تک یقینی نہیں ہے کہ آیا AAV2 وائرس بیماری کا سبب بن رہا ہے یا بنیادی طور پر یہ ایڈینو وائرس انفیکشن کے لیے بائیو مارکر (باہمی رکن) تھا، جس کا پتہ لگانا مشکل ہے لیکن یہ بنیادی عامل (بیماری پھیلانے والا جرثومہ) تھا۔
یہ دونوں مقالے آن لائن پوسٹ کیے گئے ہیں اور جرائد میں شائع ہونے سے پہلے جائزے کے منتظر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں مطالعات میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں اور ان لوگوں پر تحقیق کی گئی ہے جنہیں ہیپاٹائٹس نہیں ہوا تھا، جس سے معلوم ہوا کہ AAV2 زیادہ تر ان لوگوں میں موجود تھا جنہیں یہ بیماری ہوئی تھی جبکہ ان لوگوں میں یہ موجود نہیں تھا، جنہیں یہ بیماری نہیں ہوئی تھی۔
سکاٹش مطالعے میں ان بچوں کے جینز کا مزید تجربہ کیا گیا جنہیں یہ بیماری تھی اور ان پر بھی جنہیں یہ بیماری نہیں تھی اور انسانی جسم میں پائے جانے والے لیوکوسائٹ اینٹیجن میں فرق کو دیکھتے ہوئے یہ وضاحت کی جاسکتی ہے کہ دیگر کے مقابلے میں کچھ بچے زیادہ حساس کیوں ہوتے ہیں۔
دونوں ٹیموں نے حالیہ یا اس سے پہلے کے SARS-CoV-2 انفیکشن کو براہ راست اس بیماری کی وجہ قرار دیا۔
مریضوں کے جگر میں کوئی کرونا وائرس نہیں پایا گیا جب کہ سکاٹ لینڈ کے مطالعے سے پتا چلا کہ دو تہائی مریضوں میں کرونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز موجود تھیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ہیپاٹائٹس کے کیسوں میں حال ہی میں اضافہ کیوں ہوا، لیکن دونوں ٹیموں نے اس امکان پر زور دیا کہ لاک ڈاؤن سے بچوں میں قوت مدافعت کم ہو سکتی ہے یا پھر وائرس کے پھیلاؤ کے طریقے بھی اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی میں پیڈیاٹرک ہیپاٹولوجی کی پروفیسر ڈیرڈری کیلی، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھیں، نے کہا: ’میرے خیال میں یہ ان کیسز کے لیے ایک قابل فہم وضاحت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کو-انفیکشن (ایک ہی بیماری کے مختلف قسم کے جرا ثیم سے ایک جیسی بیماری کا لگنا) اہم ہے۔‘
تاہم انہوں نے مزید کہا: ’یہ سمجھنے کے لیے مزید کام کی ضرورت تھی کہ کچھ بچوں کو شدید بیماری کیوں ہوتی ہے اور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔‘
تھامسن نے کہا کہ ’AAV2 کی گردش کے بارے میں مزید سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے، جس کی معمول کے مطابق نگرانی نہیں کی جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزیدکہا: ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایڈینو وائرس اپنے انفیکشن کے عروج پر ہو اور اسی وقت AAV2 وائرس کے انفیکشن کا بھی عروج ہو، جس سے حساس چھوٹے بچوں میں ہیپاٹائٹس کے غیر معمولی کیسز سامنے آتے ہیں۔‘