بلوچستان کے ضلع نوشکی میں کلی قادر آباد کے رہائشی رشید مینگل اس وقت ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہیں کیونکہ ان کا گھر سیلابی ریلے سے بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔
رشید نے بتایا کہ ان کے گھر کے عقب میں بند ٹوٹ گیا تھا جس سے بڑا سیلابی ریلا داخل ہوا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔
’ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔ انتظامیہ کے کچھ لوگ آئے تھے، ٹینٹ اور راشن کا وعدہ کیا تاہم ابھی تک کچھ نہیں ملا۔‘
یہ صرف رشید کی کہانی نہیں بلکہ نوشکی کے ہر دیہی علاقے میں اس طرح کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔
ان لوگوں کو 28 جولائی کو بارشوں کے بعد شدید سیلابی ریلوں نے بے گھر اور بے آسرا کر دیا۔
ہرے کرشنا ویلفیئر سوسائٹی نوشکی کے چیئرمین مہندر کمار نے ان حالات میں سیلاب متاثرین کی مدد کا فیصلہ کیا۔
مہندر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’28 جولائی کی رات کو معمول سے زیادہ بارش ہوئی، پھر خبریں آنے لگیں کہ سیلاب آ رہا ہے، کئی علاقے ڈوب چکے ہیں۔
’رات کو یہ خبریں دیکھ کر دوسرے دن ہم نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ان علاقوں کا دورہ کیا لیکن گھروں کے گرنے، پانی اور سڑکوں کے متاثر ہونے سے کافی مشکل پیش آئی۔‘
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا: ’ہم کسی نہ کسی طرح ان متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو دیکھا کہ گھروں کی دیواریں گر چکی تھیں، ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور لوگ درختوں کے نیچے یا مٹی کے ٹیلوں پر بیٹھے تھے۔‘
’سیلاب ضلع نوشکی کے 70 فیصد حصے کو بری طرح متاثر کرچکا ہے۔ لوگوں کا دکھ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
’اکثر وہ لوگ ہیں جو مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے بہت سے مشکل سے اپنے گھر بار تعمیر کیے تھے۔
مہندر کے مطابق: ’لوگوں کے دکھ دیکھ کر ہم نے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ رضاکاروں سے مشورہ کرنے کے بعد ہم نے ان لوگوں کو راشن فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے اپنا جیب خرچ اس پر لگایا۔
’30 جولائی کو ہم پہلے بادینی کے علاقے میں گئے اور لوگوں کو راشن دیا۔ میں نے دیکھا کہ جب متاثرین آٹے کے تھیلے کو دیکھتے تو ان کے چہرے پر رونق آ جاتی اور وہ پرسکون ہو جاتے۔
’جب ہم کسی کو راشن کا سامان دیتے تو وہ نہ صرف بہت خوش ہوتا بلکہ ہمیں گلے سے لگا کر ہمارے ہاتھ تک چومتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’نوشکی میں مل، قادرآباد، احمد وال، بادینی، مینگل اور دوسرے علاقے متاثر ہوئے۔ سیلابی ریلے سب کچھ بہا کر لے گئے ہیں، یہ پورا علاقہ تباہ ہو چکا ہے۔‘
رضاکار مہندر کمار کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دیکھا کہ انسان کی پہلی ضرورت خوراک ہوتی ہے اس لیے ہم نے فوری طور پر راشن پہنچانے کا کام کیا۔ جس کے لیے آٹا، دال، چاول، چائے، گھی، چینی دوسری چیزیں جمع کیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی تنظیم نے کرونا وبا میں بھی اسی طرح دیہاڑی دار مزدور طبقے کو، جن کا کام رک گیا تھا، راشن اور خوراک مہیا کی۔
مہندر کہتے ہیں کہ ’قادرآباد اور بعض دوسرے علاقوں تک، جہاں گاڑیوں کا جانا ممکن نہیں تھا، ہم نے مقامی سماجی کارکنوں کے ذریعے راشن روانہ کیا۔ جہاں بھی ہم نے راشن دیا، لوگوں نے کہا کہ آپ پہلے بندے ہیں جو ہماری مدد کو آئے۔‘
ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے پیر کو بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔
مقامی حکام نے وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا کہ 13 جون کو بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ صوبے میں ماضی کے مقابلے میں 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی اور بارشوں کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
اب تک بلوچستان میں اموات کی تعداد 136 ہے جب کہ 70 افراد زخمی ہوئے ہیں۔