بھارت کی سپریم کورٹ نے جمعرات کو مرکزی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ 1997 میں رن آف کچھ کی سرحد کے قریب گشت کے دوران پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے فوجی افسر کے بارے میں معلومات کے لیے پاکستان سے بات کرے۔
بھارت کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 1992 میں گورکھا رائفلز میں کمیشن حاصل کرنے والے کیپٹن سنجیت بھٹاچارجی، لانس نائیک رام بہادر تھاپا کے ساتھ اپریل 1997 میں پاک بھارت سرحد سے لاپتہ ہو گئے تھے۔
کیپٹن سنجیت کی والدہ کملا بھٹاچارجی نے اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے گذشتہ سال سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
25 سال کے انتظار کے باوجود ان کی 83 سالہ والدہ کو ابھی تک یہ تک معلوم نہیں کہ ان کا بیٹا زندہ بھی ہے یا نہیں۔
جمعرات کی سماعت میں جسٹس دھننجیا وائی چندرچوڑ اور جے بی پاردی پر مشتمل بینچ نے کہا: ’ہم مرکزی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ متعلقہ حکام کے ساتھ اس معاملے کی پیروی کرے۔ درخواست گزار کو وقتاً فوقتاً، ترجیحاً ہر تین ماہ بعد، اس معاملے میں کیے گئے مزید اقدامات سے آگاہ کیا جائے۔‘
ججوں نے اس صورت حال کو ’بدقسمتی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 25 سال تک دو اہلکاروں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
درخواست گزار کے وکیل سوربھ مشرا نے دعویٰ کیا کہ سینیئر فوجی حکام سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق سنجیت بھٹاچارجی پاکستان کے شہر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بند ہیں۔
تاہم مرکزی حکومت کی نمائندگی کرنے والے ادارے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایم نٹراج نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ذریعے حکومت پاکستان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے۔
نٹراج نے کہا کہ پاکستان نے ابھی تک کیپٹن سنجیت کی جیل میں موجودگی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
بھارتی ویب سائٹ ’لائیو لا‘ کے مطابق گذشتہ سال مئی میں مرکزی حکومت نے اس درخواست کے جواب میں ایک حلف نامہ عدالت میں داخل کرایا تھا جس میں 83 جنگی قیدیوں کی فہرست پیش کی گئی تھی جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی جیلوں میں قید ہیں۔ اس فہرست میں سنجیت بھٹاچارجی کا نام بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ برسوں کے دوران بھارتی حکومت کی جانب سے لاپتہ افسر کی بازیابی کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
مشرا نے عدالت پر زور دیا کہ ایسے جنگی قیدیوں کی رہائی کی نگرانی کے لیے کسی ریٹائرڈ جج یا آرمی چیف کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جائے۔
انہوں نے مارچ 2011 کے ایک فیصلے کا حوالہ بھی دیا جس میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے ایک اور بھارتی قیدی گوپال داس کو رہا کرنے کے لیے انسانی بنیادوں پر اپیل کی تھی۔
اس اپیل کے ایک ماہ بعد پاکستان کی ایک جیل میں جاسوسی کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے گوپال داس کو اپریل 2011 میں پاکستان نے رہا کر دیا تھا۔
اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے انسانی بنیادوں پر بھارت کی درخواست پر غور کیا اور تقریباً 27 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے والے گوپال داس کی سزا معاف کر دی۔
کیپٹن سنجیت بھٹاچارجی 19 اپریل 1997 کو رن آف کچھ میں پاک بھارت سرحد پر گشت کرنے والی 17 اہلکاروں پر مشتمل پلاٹون کا حصہ تھے۔
2005 میں درخواست گزار کو اس وقت کے صدر اے پی جے عبدالکلام کا ایک خط موصول ہوا جس میں ان کے بیٹے کی گمشدگی پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔ پانچ سال بعد بھارتی فوج نے لاپتہ کیپٹن کی والدہ کو مطلع کیا کہ وہ اب بھی ان کے بیٹے کا سراغ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔