جیسا کہ انگلش پریمیئر لیگ کا نیا سیزن شروع ہو رہا ہے، برطانوی حکام کوکین استعمال کرنے والوں کو نشانہ بنانے اور لوگوں کو گراؤنڈز میں آگ لگانے اور آتش بازی سے روکنے کے اختیارات کے ساتھ شائقین کے خطرناک رویے پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسی دوران حالیہ سیزن میں بڑھتے ہوئے تشدد سے نمٹنے والی برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ فٹ بال میں ’ری سیٹ بٹن دبانے‘ کی ضرورت ہے۔
برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے کہا کہ ہوم آفس پولیس اور فٹ بال ایسوسی ایشن کے اقدامات کی حمایت کر رہا ہے جن کے تحت محکمہ داخلہ کوکین کے استعمال اور کھلاڑیوں کے خلاف آن لائن بدسلوکی کو روکنے کے لیے فٹ بال پر پابندی کے احکامات میں توسیع کر رہا ہے۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا: ’ہماری فٹ بال ٹیمیں ہمارے ملک کا فخر ہیں لیکن یہاں میچوں میں تشدد اور بدامنی پھیلانے والے لوگ قومی شرم کا باعث ہیں۔ فٹ بال میچوں میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور ہم پریقین ہیں کہ تشدد کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
ڈربی شائر کانسٹیبلری کے فٹ بال افسر پی سی ایڈم کولنز نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ملک بھر کی فورسز (پریمیئر لیگ کے دوران حالات قابو میں رکھنے کے حوالے سے) خیالات کا تبادلہ کر رہی ہیں اور داخلی تیاریاں کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سیزن کے دوران بدامنی کی شکایت میں اضافہ ایک علاقے یا صرف انگلینڈ تک محدود نہیں تھا بلکہ یورپ کے متعدد ممالک میں کرونا وبا کے بعد فٹ بال میچوں کے دوران تشدد میں اضافے کی اطلاع ملی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’کووڈ سے پہلے حالات اچھے تھے تاہم اب سب کچھ خراب ہو رہا ہے۔‘
’میرے خیال میں ایسا اس لیے ہے کیوں کہ (خطے کا) بڑا حصہ وبا سے باہر آرہا ہے جہاں لوگوں نے 18 ماہ سے فٹ بال میچوں پر پابندی دیکھی کیوں کہ انہیں (سٹیڈیم جانے کی) اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘
رواں سال کے آغاز میں یو کے فٹ بال پولیسنگ یونٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 20-2019 کے اسی عرصے کے مقابلے میں گذشتہ سیزن کی پہلی نصف مدت میں بدامنی کے واقعات میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کرونا وبا سے پہلے کی ششماہی مدت کے مقابلے پریمیئر لیگ، انگلش فٹ بال لیگ اور نیشنل لیگ کے تمام گیمز میں تقریباً نصف میں بدامنی کی رپورٹس ملی ہیں اور فٹ بال سے متعلق گرفتاریوں میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کھیلوں سے متعلق برطانوی ادارے ’سپورٹس گراؤنڈز سیفٹی اتھارٹی‘ نے کہا کہ آتش بازی اور پچ پر حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی ہجوم ایک اہم خطرہ بن گیا ہے کیوں کہ کچھ واقعات میں تو فٹبالرز پر حملے ہوئے ہیں۔
جولائی 2021 میں یورو کپ کے فائنل کے دوران ویمبلے میں سامنے آنے والی افراتفری ملک بھر میں رپورٹ ہونے والے مسائل کی آئینہ دار تھی جہاں ایک جائزے سے پتا چلا ہے کہ منشیات کے استعمال کی بلند ترین سطح ’غیر معمولی طور پر لاپرواہی اور جارحانہ رویے‘ کی وجوہات میں سے ایک تھی۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کووڈ پابندیوں میں نرمی نے عوام میں ’رہائی‘ کا احساس پیدا کیا جبکہ تجربہ کار سٹیورڈز (ایجنٹس) نے کرونا وبا کے دوران اپنی ملازمتیں چھوڑ دی تھیں اور میچوں میں غیر معمولی وقفے کے بعد حکام بھی ’نکمے‘ ہو گئے تھے۔
پی سی کولنز نے کہا کہ پولیس نئے سیزن میں گرفتاریوں اور فٹ بال پر پابندی کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ’زیادہ مثبت انداز‘ اپنائے گی۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وبا سے پہلے کے پرتشدد واقعات میں کمی کے رجحان کی وجہ سے بہت سی فورسز نے کم خطرہ سمجھے جانے والے میچوں میں اپنی نفری کو کم کر دیا تھا تاہم گذشتہ سال بدامنی میں اضافے نے انہیں حیران کر دیا۔
پولیس افسر نے اس تبدیلی کو شائقین کی ایک نئی نسل سے منسوب کیا ہے جو مارچ 2020 سے پہلے بچے تھے لیکن اب وہ شراب پی سکتے ہیں اور بڑوں کی موجودگی کے بغیر گیمز میں شرکت کر سکتے ہیں۔ یہ نسل وبا کے دوران بطور شائقین کھیلوں کی کم مصروفیت اور سکول کے پروگرامز میں کمی کے ساتھ ساتھ کوکین کا استعمال کرتی رہی ہے۔
پی سی کولنز نے مزید کہا: ’یہ تقریباً ایک مکمل طوفان کی مانند تھا اور اس نے ہم سب کو حیران کر دیا۔ یہ ایسے مناظر تھے جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، ایسے میچز تھے جہاں شائقین سیٹیں اکھاڑ کر پولیس اہلکاروں پر پھینک رہے تھے، میرے ایک ساتھی کو لوہے کی سلاخ لگی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ فٹ بال ’معاشرے کی آئینہ دار تصویر‘ ہے اور اس بات پر زور دیا کہ خواتین کے یورو 2022 ٹورنامنٹ کے بعد اہم مسائل صرف مردوں کے کھیلوں تک ہی محدود تھے۔
پی سی کولنز نے کہا: ’ہم ری سیٹ کے بٹن کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے جیسا نہیں ہے، یہ اس معمول پر واپس جانے کے بارے میں ہے جہاں ہم پہلے تھے اور ہم یہ کریں گے۔ ہم اس سیزن کے آغاز کے لیے ایک بہتر جگہ ثابت ہوں گے۔‘
فٹ بال سپورٹرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ اسے بدامنی کی شکایت، منشیات کے استعمال اور پائروٹیکنکس کے استعمال کی بڑھتی ہوئی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کرونا وبا کے بعد کے سیزن کے دوران ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
کیس ورکر امینڈا جیکس نے کہا: ’ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ ہم مداحوں کے رویے کو آئیسولیشن میں نہیں دیکھ سکتے۔ کووڈ کے بعد پولیسنگ اور سٹیورڈنگ کے معیارات میں کمی نے یقینی طور پر ان مسائل میں حصہ ڈالا ہے جو ہم نے دیکھے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’فٹ بال کو بطور صنعت تسلیم کرنا چاہیے اور یہ کہ وہ ان موجودہ رجحانات سے باہر نکلنے کے لیے پابندی یا قانونی چارہ جوئی جیسے اقدامات نہیں کر سکتے۔‘
جیکس نے کہا کہ اس کوئی ’فوری اور آسان حل‘ نہیں ہے اور یہ کہ شائقین کے گروپوں کو سماج دشمن اور مجرمانہ رویے سے دور رہنے میں مدد دی جانی چاہیے۔
انگلش فٹ بال لیگ کے سیفٹی اینڈ سکیورٹی ایڈوائزر باب ایسٹ ووڈ نے کہا: ’’یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے بیشتر میچز میں ایسے واقعات نہیں ہوتے کیونکہ شائقین کی اکثریت اپنی ٹیم کو سپورٹ کرتی ہے اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں کا احترام کرتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مئی میں حکومت نے میچوں میں کوکین استعمال کرنے کے مرتکب شائقین کے لیے فٹ بال پر پابندی کے احکامات میں توسیع کا اعلان کیا تھا اور بیرون ملک میچز میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے ان کے پاسپورٹس کو ضبط کرنے کے قوانین معتارف کرائے تھے۔
عدالتوں کی طرف سے نافذ کیے گئے احکامات اس سے پہلے تشدد، بد نظمی اور نفرت انگیز جرائم کے مرتکب افراد پر عائد کیے جا سکتے تھے۔
جولائی میں پریمیئر لیگ، ای ایف ایل اور فٹ بال ایسوسی ایشن نے پچ پر حملہ آوروں، منشیات استعمال کرنے والوں اور سٹیڈیمز سے پائروٹیکنکس لے جانے والے لوگوں پر پابندی لگانے کے لیے الگ الگ اقدامات کا اعلان کیا تھا۔
پریمیئر لیگ کے چیف ایگزیکٹیو رچرڈ ماسٹرز نے کہا کہ ’شائقین کے رویے کے مسائل میں نمایاں اضافے کے لیے سخت ردعمل‘ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم یہ واضح کر رہے ہیں کہ پچھلے سیزن میں ہم نے جس قسم کے واقعات دیکھے تھے اسے روکنا چاہیے۔ اگر ہم اجتماعی اور مستقل کارروائی نہیں کرتے ہیں تو یہ وہ وقت دور نہیں جب کوئی شخص شدید زخمی ہو جائے یا شاید اس سے بھی بدتر۔‘
© The Independent