زینت بی بی: زبردستی استعفے سے لے کر ایوارڈ جیتنے تک کا سفر 

زینت بی بی سے دسمبر 2019 میں اس بات پر استعفیٰ لیا گیا کہ وہ دوران ملازمت اپنا شیر خوار بچہ ساتھ لاتی تھیں اور 2022 میں انہیں ایک شارٹ فلم پر امریکی ایوارڈ ملا۔

زینت بی بی کو ایوارڈ امریکہ میں قائم تنظیم ’امپاورمنٹ ویمن میڈیا‘ کی جانب سے دیا گیا (تصویر: زینت بی بی)

دسمبر 2019 میں بہت سے میڈیا چینلز پر پشاور کی ایک صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن اور ان کے بچے کی خبر گردش کرنے لگی کہ وہ جس ادارے میں کام کرتی تھیں وہاں ان سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا ہے۔

استعفعے کی وجہ ان صحافی کا اپنا چھ ماہ کا بچہ کام پر ساتھ لے کر جانا بنی۔  

ان صحافی کا نام ہے زینت بی بی۔ زینت بی بی کے دو بچے ہیں اور دو بچوں کے ساتھ انہوں نے ایک بین الاقوامی ایوارڈ بھی اپنے نام کیا ہے۔

زینت بی بی کو یہ ایوارڈ  (وہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کھڑی ہوئی) کے عنوان سے ایک مختصر فلم تیار کرنے پر ملا۔

یہ ایوارڈ انہیں امریکہ میں قائم تنظیم ’امپاورمنٹ ویمن میڈیا‘ کی جانب سے دیا گیا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے زینت نے بتایا کہ ان کا تعلق نوشہرہ سے ہے اور وہ گزشتہ 12، 13 برس سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔  

کچھ برس انہوں نے اسلام آباد میں کام کیا لیکن پھر ایک اور نوکری کے سلسلے میں پشاور آئیں اور یہیں رہنے لگیں۔ شادی بھی انہوں نے یہیں کی۔

زینت کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں خواتین کے مسائل کافی زیادہ ہیں اس کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں، بچوں اور خواجہ سراؤں کے بھی مسائل کافی زیادہ ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ مختلف نیوز چینلز کے ساتھ کام کر رہی تھیں تب بھی ان کی یہی کوشش تھی کہ وہ خواتین، اقلیتوں، بچوں اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کریں ان کے مسائل میڈیا پر لائے جائیں تاکہ وہ حل ہو سکیں۔

انہوں نے بتایا ’اس دوران میں نے Genderlens.pk کے نام سے ایک اپنا پلیٹ فارم بھی بنایا۔‘

زینت کا کہنا ہے ’مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے میں نے اس لیے کام کرنا چاہا کیونکہ میں گزشتہ آٹھ دس برس سے پشاور میں رہ رہی ہوں۔ دیکھا جائے تو خیبر پختونخواہ مذہبی انتہا پسندی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا گڑھ رہ چکا ہے۔ اس امر میں ہماری مذہبی اقلیتوں کے افراد بہت زیادہ متاثر ہوئے۔‘

’اگر ہم ماضی دیکھیں تو صدیوں سے اسی صوبے میں مذہبی اقلیتوں کے لوگ امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہے تھے لیکن اچانک ایسا کیا ہوگا کہ  مذہبی انتہا پسندی بڑھ گئی۔ نفرتیں بڑھ گئیں، ہم ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر کھانا پینا پسند نہیں کرتے۔ یہ ساری چیزیں تھیں جنہوں نے مجھے اس ٹاپک پر کام کرنے پر مجبور کیا۔‘

زینت نے بتایا کہ انہوں نے مختلف مذاہب کو بڑی تفصیل سے مطالعہ کیا اور تمام مذاہب برائی سے روکتے ہیں۔ ہر مذہب امن، بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی تلقین کرتا ہے۔ انسانیت کا درس دیتا ہے۔

’میری سوچ یہی تھی کہ جب مذہبی تعلیمات امن کا پیغام دے رہی ہیں تو کیوں ہماری نئی نسل انتشار اور مذہبی انتہا پسندی کی جانب جا رہی ہے۔‘

انہوں نے بتایا ’میری فلم میں ایسی خاتون کی کہانی کو لیا گیا ہے جنہوں نے ایک ایسا بڑا قدم اٹھایا کہ وہ خیبر پختونخواہ میں رہتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی پر ڈائیلاگز کروا رہی ہیں۔ وہ بھی ایک چھت کے نیچے۔ چاہے وہ مسجد ہے، مندر، گردوارہ، یا گرجا گھر، سب ایک چھت تلے بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرتے ہیں اور آپس کی نفرتوں کو ختم کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔

زینت کا کہنا ہے ’اس فلم کو بنانے کا مقصد یہی تھا کہ معاشرے میں مذہبی آزادی و ہم آہنگی کے حوالے سے ایک مثبت پیغام پہنچایا جائے۔‘ 

ایمپاورمنٹ ویمن میڈیا کے حوالے سے زینت نے بتایا کہ یہ ایک امریکی  تنظیم ہے۔ ان کی جانب سے ایک آن لائن  فیلو شپ کروائی گئی۔ ’میں نے اس فیلو شپ میں شرکت کی جس 30 سے زیادہ خواتین شریک تھیں۔ اس  میں ہماری ایک ایک دو دو گھنٹے کی کلاسیں ہوتی تھیں جن میں ہمیں مذہبی آزادی، اس حوالے سے موجود  بین الاقوامی قوانین ، یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (مذہبی آزادی کیا ہے اور کس طرح مذہبی آزادی دوسرے عناصر پر اثر انداز ہوتی ہے) کے حوالے سے بتایا اور سکھایا گیا۔‘  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ بھی بتایا گیا کہ جن کے پاس مذہبی آزادی نہیں ہے تو وہ کس طرح کی مشکلات کا سامنا کر سکتا ہے جس میں معاشی شرکت، نفسیاتی اثرات وغیرہ شامل ہیں اور یہ سب کس طرح سے انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں فلم بنانے کے طریقے بھی بتائے گئے۔ اس تربیت کے اختتام پر ہمیں ایک شارٹ فلم بنانی تھی اور  اس تنظیم نے ہی ہمیں ان فلمی مقابلوں کے لیے بین الاقوامی مذہبی آزادی سمٹ سے جوڑا۔‘  

زینت نے بتایا کہ انہیں اسی سمٹ کے تحت اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب میں یہ ایوارڈ دیا گیا تھا جہاں مذہبی ہم آہنگی اور مذہبی آزادی کے حوالے سے کام کرنے والے مختلف اقلیتوں کے لوگ شامل تھے۔ یہاں تک کہ مختلف اقلیتوں کی لیڈر شپ بھی وہاں موجود تھی۔ اس سمٹ کے تحت مختلف ممالک میں تقریبات کی جا رہی ہیں جن میں زینت کی فلم کو بھی سکرین کیا جارہا ہے۔

آئندہ اکتوبر اسی سلسلے میں ایک تقریب واشنگٹن میں بھی منعقد ہوگی جہاں میں زینت کی فلم سکرین کی جائے گی۔  

زینت کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اس فتح کا کریڈٹ اپنے والدین اور اپنے شوہر کو دینا چاہیں گی جن کا تعاون ہمیشہ ان کے ساتھ رہا۔ ’کہتے ہیں ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو ایک کامیاب عورت کے پیچھے بھی ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میری زندگی میں بھی ایسے مرد ہیں جن کے تعاون سے آج میں یہاں تک پہنچ پائی ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی فلم