امریکی ریاست اوہائیو کے شہر سنسیناٹی کے حکام نے بتایا ہے کہ پولیس نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف بی آئی) کے دفتر میں گھسنے کی کوشش کرنے والے ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق واقعہ جمعرات کو علی الصبح پیش آیا جب مشتبہ شخص نے ایف بی آئی کی وزیٹر سکریننگ والی عمارت میں داخل ہونے کی ناکام کوشش کی۔
ایف بی آئی نے بتایا کہ اس کے بعد وہ ایک سفید گاڑی میں علاقے سے فرار ہو گیا اور انٹراسٹیٹ 71 پر شمال کی طرف جا رہا تھا۔
اوہائیو سٹیٹ ہائی وے پیٹرول کے ترجمان ناتھن ڈینس نے ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ اس کا پیچھا کیا گیا اور مشتبہ شخص نے اپنے ہتھیار سے ایک فوجی پر فائر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ بالآخر گاڑی کلنٹن کاؤنٹی میں رک گئی اور مشتبہ شخص اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، کافی دیر تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا اور اس کے ابتدائی حملے کے چھ گھنٹے بعد مشتبہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
ناتھن ڈینس نے کہا: ’آج دن بھر قانون نافذ کرنے والے افسران نے مشتبہ شخص کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی۔ ایک وقت کے بعد مذاکرات ناکام ہو گئے۔‘
انہوں نے کہا: ’اس کے بعد مشتبہ شخص نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب آتشیں اسلحہ اٹھایا اور موقعے پر موجود قانون نافذ کرنے والے افسران نے گولیاں چلائیں، جس سے مشتبہ شخص جائے وقوعہ پر ہلاک ہوگیا اور کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔‘
پولیس نے ابھی تک مشتبہ شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی اور نیوز بریفنگ کے دوران اس شخص کے مقصد کے حوالے سے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور چینل این بی سی نیوز نے بے نام ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت 42 سالہ رکی شفر کے نام سے کی ہے۔
اسی نام کے ایک شخص نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بنائے گئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اس حملے سے متعلق خبردار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پیغام میں کہا گیا: ’اگر آپ کو میری طرف سے کچھ بھی سننے کو نہ ملے تو یہ سچ ہوگا کہ میں نے ایف بی آئی پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو مجھے انٹرنیٹ سے ہٹا دیا گیا ہے یا ایف بی آئی نے مجھے پکڑ لیا یا انہوں نے باقاعدہ پولیس اہلکاروں کو بھیجا۔‘
تاہم جب پولیس کی جانب سے صحافیوں کو بتایا گیا کہ سنسیناٹی کے مشتبہ شخص کو ہلاک کردیا گیا ہے تو اس کے فوراً بعد یہ اور اس جیسی دیگر پوسٹس ہٹا دی گئیں۔
این بی سی نیوز نے اس معاملے سے واقف دو عہدیداروں کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ مشتبہ شخص چھ جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کے دوران واشنگٹن میں کیپٹل ہل کی عمارت میں موجود تھا۔
نیویارک ٹائمز نے اس معاملے سے واقف قانون نافذ کرنے والے دو عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ تفتیش کار اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اس شخص کے انتہا پسند گروپوں سے تعلقات ہیں یا نہیں۔
سابق امریکی صدر کے ایف بی آئی کے ساتھ کچھ مسائل کی وجہ سے ٹرمپ کے کچھ حامی ایجنسی کے خلاف نظر آتے ہیں۔ ان مسائل میں 2016 کی صدارتی مہم میں روس کی جانب سے حمایت اور پیر کو فلوریڈا میں ان کے گھر پر عدالتی حکم پر چھاپے کے واقعات شامل ہیں۔
جب سے ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر کی تلاشی لی ہے، اس وقت سے ایف بی آئی کو آن لائن دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رائے نے جمعرات کے واقعات کے بعد ایک بیان جاری کیا، جس میں ’ایف بی آئی کی سالمیت پر بے بنیاد حملوں‘ کی مذمت کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آئی سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف تشدد اور دھمکیاں خطرناک اور تمام امریکیوں کے لیے پریشان کن ہیں۔
ٹرمپ کے گھر تلاشی کی تفصیلات منظر عام پر لانے کی درخواست
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرم کے گھر پر ڈرامائی چھاپے کی ’ذاتی طور پر منظوری‘ دی تھی۔
ساتھ ہی انتہائی غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے وہ اجازت طلب کر رہے ہیں کہ اس چھاپے کے لیے جاری کیے گئے وارنٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔
اجازت طلب کرنے کی اس درخواست کا مطلب ہے کہ امریکی عوام جلد ہی اس بارے میں مزید جان سکیں گے کہ سابق صدر کے گھر کی تلاشی کے دوران تفتیش کار کیا کچھ تلاش کر رہے تھے۔
جمعرات کو اپنے بیان میں میرک گارلینڈ نے سابق امریکی صدر کے گھر کی تلاشی کی وجہ ظاہر نہیں کی، تاہم انہوں نے ایف بی آئی اور محکمہ انصاف پر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ’بے بنیاد سیاسی حملوں‘ کی مذمت کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت کی جانب سے تلاشی کے اس اقدام کو سیاسی انتقام کے طور پر پیش کیا تھا۔
چند مبصرین کے مطابق امریکی محکمہ انصاف کا یہ اقدام اس تفتیش کا حصہ تھا کہ ٹرمپ نے جنوری 2021 میں عہدہ چھوڑتے ہی وائٹ ہاؤس سے غیر قانونی طور پر جو صدارتی ریکارڈز ہٹائے تھے، ان میں کیا کوئی ممکنہ درجہ بندی کی گئی یا نہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق میرک گارلینڈ نے پیر کے چھاپے کے بعد اپنے پہلے عوامی بیان میں صحافیوں کو بتایا: ’میں نے ذاتی طور پر تلاشی کے وارنٹ حاصل کرنے کے فیصلے کی منظوری دی۔ محکمہ اس طرح کے فیصلے کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے اور ضبط شدہ اشیا کی رسید کو بھی عام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘
میرک گارلینڈ کا کہنا تھا کہ اخلاقی ذمہ داریوں نے انہیں چھاپے کی تفصیلات بتانے سے روکا اور بعد ازاں یہ درخواست اسی لیے دی گئی کیونکہ ٹرمپ نے عوامی طور پر تلاشی کی تصدیق کی تھی اور اس معاملے میں ’کافی عوامی تجسس‘ موجود ہے۔
روئٹرز کے مطابق عوامی طور پر تلاشی کی تصدیق کا یہ فیصلہ انتہائی غیر معمولی تھا۔ امریکی قانون نافذ کرنے والے اہلکار عام طور پر شہری انسانی حقوق کے تحفظ کی وجہ سے ایسی تحقیقات پر بات نہیں کرتے۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ کے پاس سرچ وارنٹ کی ایک کاپی موجود ہے لیکن اب تک انہوں نے بھی اس میں درج مواد کو ظاہر نہیں کیا ہے۔
میرک گارلینڈ کی طرف سے دائر کردہ درخواست کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹرمپ کے پاس جمعے کو سہ پہر تین بجے تک کا وقت ہے۔ یہ مقدمہ امریکی مجسٹریٹ بروس رین ہارٹ کے سامنے ہے، جنہوں نے وارنٹ کا جائزہ لیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ محکمہ انصاف کے پاس تلاشی کے لیے ممکنہ وجوہات موجود ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل نیٹ ورک‘ پر اپنے بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ ’میرے وکلا اور نمائندوں نے (تلاش کنندگان سے) مکمل تعاون کیا۔ جو کچھ امریکی حکومت ڈھونڈنا چاہتی تھی، اگر ہمارے پاس ہوتا، تو اسے مل جاتا۔‘
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق میرک گارلینڈ ٹرمپ کے اس الزام سے نمٹنے کی اچھی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ چھاپہ بے بنیاد اور سیاسی تھا۔
محکمہ انصاف کے ایک سابق اہلکار اینڈریو ویس مین نے کہا کہ میرک گارلینڈ نے وارنٹ دستاویز کو جاری کرنے پر اعتراض یا رضامندی کا ذمہ سابق صدر ٹرمپ پر ڈال کر ایک اچھی سیاسی چال چلی ہے۔
صدر ٹرمپ کے نمائندگان کے مطابق ایف بی آئی صدارتی ریکارڈ اور متعلقہ اہم مواد کی تلاش کر رہی تھی اور اس پر کوئی تنازع نہیں ہوا جب کہ امریکی میڈیا کے مطابق یہ تلاشی جنوری 2021 میں وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد سابق صدر ٹرمپ کے ساتھ لے جائی گئی خفیہ دستاویزات کے ممکنہ غلط استعمال کے حوالے سے تھی۔
’جوہری ہتھیاروں سے متعلق خفیہ دستاویزات‘
جمعرات کو واشنگٹن پوسٹ نے ان تحقیقات سے قریبی طور پر واقف گمنام ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چھاپے کے دوران ایف بی آئی کے ایجنٹوں کی طرف سے مانگے گئے کاغذات میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق خفیہ دستاویزات بھی شامل تھیں۔
اخبار نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا ملوث جوہری ہتھیاروں کا تعلق امریکہ سے ہے یا کسی اور ملک سے، نیز یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا اس طرح کی دستاویزات سابق صدر کے پام بیچ میں واقع ریزورٹ سے برآمد ہوئی یا نہیں۔ خبر رساں ادارہ روئٹرز فوری طور پر اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کر سکا۔
اس معاملے سے واقف ’ذرائع‘ کے مطابق ایف بی آئی نے تلاشی کے دوران ٹرمپ کی جائیداد سے تقریباً 10 بکس برآمد کیے ہیں جب کہ تلاشی کے وقت ٹرمپ فلوریڈا میں نہیں تھے۔
ٹرمپ کے دو وکلا ایون کور کورن اور جان رولی نے اس خبر پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔