گذشتہ جمعے کو مصنف سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ اس وقت کیا گیا جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کے اس فتوے کو 33 سال سے زائد کا وقت گذر چکا تھا جس میں انہوں نے مصنف کو سزائے موت کو حق دار ٹھہرایا تھا۔
سزائے موت کا فتوی:
14 فروری 1989 کو خمینی نے سلمان رشدی کو متنازع کتاب لکھنے پر واجب القتل قرار دیا تھا۔ خمینی کا کہنا تھا کہ اس کتاب کہ ذریعے اسلام کی توہین کی گئی ہے۔
ایک فتوے یا مذہبی فرمان میں خمینی نے ’دنیا کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ کتاب کے مصنف اور ناشروں کو پھانسی دیں‘ تاکہ آئندہ کوئی بھی اسلام کی مقدس اقدار کو پامال کرنے کی جرات نہ کرے۔‘
خمینی، جن کی عمر اس وقت 89 سال تھی اور اس کے بعد وہ صرف چار ماہ زندہ رہے، نے مزید کہا کہ جو کوئی بھی سزائے موت پر عمل درآمد کی کوشش میں مارا گیا اسے ’شہید‘ سمجھا جانا چاہیے جو جنت میں جائے گا۔
رشدی کے سر کی قیمت 28 لاکھ ڈالر رکھی گئی تھی۔
اس وقت برطانوی حکومت نے فوری طور پر سلمان رشدی کو پولیس کا تحفظ فراہم کیا جو انڈیا میں پیدا ہونے والے ایک ملحد تھے اور جن کے والدین اسلام پر سختی سے عمل نہیں کرتے تھے۔
کتاب لکھنے کے بعد سلمان رشدی تقریبا 13 سال تک جوزف انٹون کے نام کے ساتھ ایک سے دوسرے سیف ہاؤسزمیں منتقل ہوتے رہے اور پہلے چھ ماہ میں 56 بار اپنا ٹھکانہ تبدیل کیا۔
’ رشدی کو پھانسی دو'
اکتوبر 1988 میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے انتخابات سے قبل مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی امید میں اس کتاب کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تقریبا 20 ممالک نے اس کتاب کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوری 1989 میں برطانیہ کے شمالی شہر بریڈ فورڈ کے مسلمانوں نے عوامی سطح پر اس کتاب کی کاپیاں جلائیں۔
ایک ماہ بعد ہزاروں پاکستانیوں نے اسلام آباد میں امریکی انفارمیشن سینٹر پر حملہ کیا اور امریکہ مخالف اور ’سلمان رشدی کو پھانسی‘ دو کے نعرے لگائے۔ مظاہرین پر پولیس فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک بھی ہوئے۔
یورپ میں مظاہرے ہوئے اور لندن اور تہران نے تقریبا دو سال تک سفارتی تعلقات منقطع کیے رکھے۔
حملے
سلمان رشدی 1991 میں آہستہ آہستہ اپنی خفیہ زندگی سے نکلے لیکن اسی سال جولائی میں ان کا جاپانی مترجم مارا گیا۔
چند دن بعد ان کے اطالوی مترجم پر چاقو سے حملہ کیا گیا اور دو سال بعد ناروے کے ایک ناشر کو گولی مار دی گئی، تاہم یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا کہ یہ حملے خمینی کی فتوے کے ردعمل میں کیے گئے تھے۔
1993 میں مظاہرین نے وسطی ترکی کے ایک ہوٹل کو نذر آتش کر دیا۔ ان میں سے کچھ کو مصنف عزیز نیسن کی موجودگی پر غصہ تھا۔ عزیز نیسن نے ترکش زبان میں اس کتاب کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ فرار ہو گئے لیکن 37 افراد ہلاک ہوگئے۔
1998 میں ایران کے اصلاح پسند صدر محمد خاتمی کی حکومت نے برطانیہ کو یقین دلایا کہ ایران اس فتوے پر عمل درآمد نہیں کرے گا۔
لیکن خمینی کے جانشین آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2005 میں کہا تھا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ سلمان رشدی ایک ’شاتم‘ ہے جس کے قتل کی اسلام اجازت دیتا ہے۔
’اسلاموفوبیا‘ کی لہر
برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے2007 میں جب سلمان رشدی کو شاہی اعزاز دیا اور سر کے لقب سے نوازا تو اسلامی ممالک میں اس پر سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔
ایران نے برطانیہ پر’اسلاموفوبیا‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا فتویٰ اب بھی قائم ہے۔ اس کے بعد کئی اسلامی ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔
سلمان رشدی اس وقت تک نیویارک میں نسبتا کھلے عام رہ رہے تھے جہاں وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں منتقل ہوئے تھے اور جہاں وہ اپنے حالیہ ناول لکھ رہے ہیں۔
جمعے کو اس حملے سے قبل کئی برسوں تک چھپ کر رہنے کے بعد وہ ایک سماجی شخصیت بن چکے تھے۔