اسرائیل اور ترکی کے درمیان کئی ماہ سے جاری مفاہمتی عمل کے بعد دونوں ممالک نے برسوں میں پہلی بار ’مکمل سفارتی‘ تعلقات بحال اور سفیروں کا تبادلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس بات کا اعلان مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے بدھ کو کیا۔
ماضی میں دوستانہ تعلقات رکھنے والے دونوں ممالک کے درمیان ایک دہائی سے زائد عرصے تک غزہ کی ناکہ بندی سمیت کئی مسائل کے باعث سفارتی تناؤ رہا لیکن رواں سال کے شروع میں اسرائیل اور ترکی نے باہمی رابطوں کا آغاز کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل کے نگراں وزیر اعظم یائر لاپید نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ترکی کے ساتھ تعلقات کی بحالی علاقائی استحکام کے لیے ایک اہم اثاثہ اور اسرائیلی شہریوں کے لیے بہت اہم اقتصادی خبر ہے۔‘
یائر لاپید کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تعلقات کو بحال کرنے سے دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان پہلے سے موجود تعلقات کو گہرا کرنے، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی روابط کو وسعت دینے اور علاقائی استحکام کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔‘
دوسری جانب ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوشوغلو نے سفیروں کی دوبارہ تعیناتی کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ اپنا سفیر تل ابیب بھیجے گا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کے باوجود فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
ترک وزیر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسرائیل کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع ہوا۔ سفیروں کی تعیناتی ان اقدامات میں شامل تھی جو تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کیے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم فلسطین، یروشلم اور غزہ کے حقوق کا دفاع جاری رکھیں گے۔‘
اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات ترک صدر رجب طیب اردگان کے دور میں منقطع ہو گئے تھے جو فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیل کی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔
اسرائیل نے جواباً ترکی کی طرف سے غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی حمایت پر انقرہ سے اعتراض کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انقرہ اور تل ابیب نے 2010 میں اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے ملکوں سے اس وقت واپس بلا لیا تھا جب اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد لے جانے والے ترکی کی ایک بحری کشتی پر حملہ کیا۔ اس واقعے کے نتیجے میں نو ترک کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔
تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں ایک مرتبہ پھر گھٹائی میں پڑ گئیں جب ترکی نے 2018 میں امریکہ کی جانب سے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے بعد اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے ساتھ مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر رکھا ہے۔
معاشی مشکلات سے دوچار ترکی مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر اپنی بین الاقوامی تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
رواں سال کے آغاز میں یائر لاپید نے جون میں اپنے ترک ہم منصب کے مقبوضہ بیت المقدس کے دورے کے ایک ماہ بعد انقرہ کا دورہ کیا تھا جو 15 سالوں میں کسی ترک عہدیدار کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ تھا۔
مارچ میں اسرائیل نے بھی ترکی کے دارالحکومت میں صدر اردوغان سے ملاقات کی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات کی بحالی اور سفیروں کی تعیناتی کے اعلان پر حماس کی سیاسی قیادت میں شامل باسم نعیم کا کہنا ہے کہ ’گروپ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کے لیے کسی بھی قسم کی کوششوں کو مذمت کرتا ہے۔‘
باسم نعیم نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم تمام عرب، مسلمان اور دوست ممالک سے امید کرتے ہیں کہ وہ قابض (اسرائیل) کو تنہا کرنے کی جانب بڑھیں اور ہمارے قانونی فلسطینی حقوق کے لیے دباؤ ڈالیں۔‘