1960 کے آس پاس دو ایسی غلطیاں میڈیکل سائنس سے ہوئیں جن میں سے ایک کا تو پھر بھی کچھ عرصے میں پتہ چل گیا، دوسری ابھی پچھلے ہفتے دریافت ہوئی ہے، لیکن ان دونوں کا خمیازہ لاکھوں انسانوں کو بھگتنا پڑا۔
اصل میں سائنس کی ہر بات پر ہم لوگ آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے ہیں کیونکہ بہرحال یہی علم ہے جس نے ہمیں گاڑی، واٹس ایپ اور دنیا کی بے تحاشا نعمتیں دی ہیں۔ ایسا ہے کہ نہیں؟
جو لوگ سائنس کو نہیں مانتے انہیں کرونا ویکیسین بھی دو نمبر لگتی ہے، امریکیوں کا چاند پر پہنچنا آج تک فراڈ لگتا ہے اور کلائمیٹ چینج پر بھی وہ کئی سوال اٹھاتے ہیں۔
جیسے ابھی فائزر کے سی ای او کو چار مرتبہ بوسٹر شاٹ لگنے کے بعد بھی کرونا ہو گیا، یا وہ پوچھتے ہیں کہ چاند پہ امریکی جھنڈا لگ تو گیا لیکن وہ لہرا کیوں رہا تھا؟ کیا چاند پہ بھی خلا کے بجائے ہوا ہوتی ہے؟
ایک اور سوال یہ کیا جاتا ہے کہ پچاس ساٹھ برس میں ساری صنعتی ترقی تو یورپ امریکہ نے کی اور اب کہ جب ماحول آلودہ ہو گیا تو اس کا سارا پریشر ہم جیسی غریب قوموں پہ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ غلط کام تم نے کیا ہے تو بھگتو بھی خود!
اگر مجھے ایک گائے بیچنی ہو اور میں کہوں کہ میری گائے سرخ ہے، اس کی جلد چمکدار ہے، اس کے سینگ خوبصورت ہیں اور اس کی آنکھیں انتہائی دلنشیں ہیں ۔۔۔ تو کیا ایک کسان میری گائے خرید لے گا؟
نہ! اسے صرف اس چیز سے مطلب ہے کہ میری گائے دودھ کتنا دیتی ہے۔ اگر میں کہوں کہ وہ ایک دن میں 70 لیٹر دودھ دیتی ہے تو یہ اس کے لیے ایک معجزہ ہو گا۔ وہ نہ صرف منہ مانگی قیمت پہ خریدے گا بلکہ اس کی نسل آگے بڑھانے کی کوشش بھی کرے گا۔ دنیا میں کاروبار اسی طرح چلتا ہے۔ خیر، مطلب کی بات پہ آتے ہیں۔
میڈیکل سائنس اپنی ذات میں ایک ایسی کمپلیکس چیز ہے جس کے ساتھ صرف انسانوں کی بھلائی وابستہ نہیں ہے بلکہ اس سے لاکھوں بندوں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔
1960 کے آس پاس ہونے والی وہ غلطیاں جو تھیں ان دونوں کا مقصد ایک تھا، ’ڈپریشن کا علاج۔‘
1953 میں سیبا نامی کمپنی (سیبا گائیگی کے اشتہار والی سیبا) نے ایک دوا بنائی جس کا نام تھیلیڈومائیڈ تھا۔ یہ دوا بے چینی، بے خوابی یا ڈپریشن کے مریضوں کو دی جاتی تھی اور دواساز ادارے کے مطابق اس کا استعمال دوران حمل بھی محفوظ تھا۔ 1961 کے آس پاس یہ بم پھٹا کہ تھیلیڈومائیڈ سے اب تک 10 ہزار (بعض اندازوں کے مطابق 20 ہزار تک) بچے ایسے پیدا ہوئے ہیں جو کسی نہ کسی عجیب و غریب جسمانی معذوری کا شکار ہیں اور ان میں سے چالیس فیصد یعنی چار ہزار بچے پیدائش کے فوراً بعد مر بھی گئے۔ 1961 میں یہ دوا 46 ملکوں میں بین کر دی گئی۔
اب اصل کیس پر بات کرتے ہیں۔ 20 جولائی 2022 میں شائع ہونے والے اس پیپر کے مطابق ڈپریشن کے لیے دی جانے والی ادویات کا دماغ کے اس کیمیکل سے کوئی خاص تعلق ہی نہیں ہے جس کے لیول بڑھا دینے سے میڈیکل سائنس سمجھتی تھی کہ انسان کا ڈپریشن ختم ہو جاتا ہے۔ اس کیمیکل کا نام سیروٹینن ہے۔ 1960 سے یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ سیروٹینن کے گھٹ جانے سے انسان ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے اور اگر اس کی مقدار بڑھا دی جائے تو انسانی دماغ ڈپریشن سے باہر نکل آتا ہے۔
اس تحقیق کو ’میٹا اینالسس‘ کہا گیا۔ یہ لفظ تب استعمال ہوتا ہے جب کسی طبی مسئلے پر بہت سارے نظریے موجود ہوں اور موجودہ تحقیق اتنے بڑے پیمانے کی ہو کہ وہ ان سب کا احاطہ کرتی ہو اور ان کا نچوڑ پیش کرتی ہو۔ اس تحقیق میں یورپی اور امریکی اہم ترین طبی اداروں کے 361 پیپر شامل تھے۔
اس ریسرچ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اینٹی ڈیپریسنٹ دواؤں کا مسلسل استعمال الٹا دماغ میں سیروٹینین لیولز کو کم کر دیتا ہے۔ یعنی 1960 سے اب تک ڈپریشن کے لیے جو دوائیں دی گئیں انہوں نے مریض کے حالات کو مزید خراب کیا!
اسے یوں سمجھ لیں کہ جس چیز یعنی سیریٹونین کا، علم ہی نہیں تھا اسے گھٹاتے یا بڑھاتے رہے اور سمجھا جاتا رہا کہ مریض ٹھیک ہو رہا ہے اور مریض کو آرام آیا تو شاید ان دواؤں کی وجہ سے جو دماغی نیورونز کی حرکت کو آہستہ کر دیتی تھیں۔
سب سے تکلیف دہ بات ریسرچ میں یہ تھی کہ لوگ اس سیروٹینین والے چکر کی وجہ سے کبھی ڈپریشن کی دوائیاں چھوڑنے کی بھی کوشش نہیں کرتے اور ساری عمر کے لیے ان دواؤں پر انحصار کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل کے مطابق اس تحقیق کو چیلنج کیا گیا ہے اور اس بات پہ زور دیا گیا ہے کہ سیروٹنن کا تعلق ہو یا نہ ہو اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بہرحال مریضوں کے لیے ضروری ہیں۔
اس تحقیق اور پھر اس کے اوپر دوبارہ تحقیق کی یہ ساری کارروائی بتانے کا مقصد یہ تھا کہ کائنات میں جہاں ہر چیز غیر حتمی ہے وہاں میڈیکل سائنس بھی گھٹنوں کے بل گرتی ہے پھر سنبھلتی ہے، لیکن کائنات ہو یا میڈیکل سائنس ۔۔۔ ہر چیز کا نتیجہ ہم انسان ہی بھگتتے ہیں۔ یہ بہرحال تکلیف دہ ہے۔
انسانی دماغ اتنی پیچیدہ چیز ہے جس کا حساب دو جمع دو قسم کے فارمولوں سے نہیں لگایا جا سکتا۔
ڈپریشن، غصہ، دکھ، افسوس، جلن، حسرت، خوشی، ستائش۔۔۔ ان سب کی ڈگری کیا ہوتی ہے کبھی اندازہ ہوا آپ کو؟ کیا سب انسانوں میں یہ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں؟
صرف ڈپریشن کو تولا جائے تو ایک سے لے کے ایک کروڑ سے بھی اوپر کی درجہ بندی ہو سکتی ہے۔ کون سے لیول پہ آدمی خودکشی کر جائے اور کس درجے پہ بیٹھ کر محض روتا رہے، کیا یہ پیمانے ہر انفرادی انسان کے الگ نہیں ہوتے؟
رشک کب حسد میں بدلتا ہے ۔۔۔ کیسے آئیڈیا ہو سکتا ہے؟ اگر 200 ڈگری پہ جا کے رشک حسد میں بدل جاتا ہے تو دو لاکھ ڈگری پہ حسد میں انسان دوسرے بندے کو مار دے گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر سو درجے خوشی پہ آپ ناچتے ہیں تو کیا پچاس ہزار درجے کی خوشی آپ کا ہارٹ فیل نہیں کرے گی؟
نفسیات کا ہی علم ہے جو کسی پیر فقیر کو مشہور کر دیتا ہے، کسی موٹیویشنل سپیکر کو لاکھوں میں تلواتا ہے یا کسی تھیراپسٹ اور ڈاکٹر کا بزنس چمکا دیتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ڈاکٹر کے پاس ڈگری ہوتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر بھی کیا کرے کہ اس کا سارا انحصار انہی تحقیق کاروں (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) پہ ہے۔
جب میں دیکھتا ہوں کہ میڈیکل سائنس کے شعبہ تحقیق میں ساری انویسٹمنٹ کسی نئی پین کلر (درد کش دوا) یا نئی اینٹی بائیوٹک (نئی ترین اینٹی بائیوٹک 2015 میں آئی تھی آخری بار)کی بجائے زیادہ تر اینٹی کینسر اور جین تھیراپی پہ ہو رہی ہے تو میں کیا نتیجہ نکال سکتا ہوں؟ جب کہ مجھے پتہ بھی ہے کہ یہ سب دوائیں مہنگی بکتی ہیں اور پین کلر یا اینٹی بائیوٹک زیادہ سے زیادہ چند سو روپے میں فروخت ہو سکتی ہیں؟
جب میں دیکھتا ہوں کہ شدید حرام اور نشہ سمجھی جانے والی افیم اور ماری جوانا دواؤں میں قانونی طور پہ استعمال ہو رہی ہیں۔ کیٹامن اور ایفی ڈرین تک میڈیسنز میں موجود ہیں۔ ایم ڈی ایم اے اور میجیکل مشروم کو ڈپریشن کے علاج میں آزمایا جا رہا ہے؟
انڈسٹری ۔۔۔ فارما انڈسٹری ۔۔۔ بڑی کمپنیاں اور ان کا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا شعبہ! ترجیحات کا تعین کمرشلزم کے حساب سے ہے اور یہاں تک لانے کے لیے بس آپ کو میں نے گائے بیچنے والی مثال دی تھی۔