کبھی کبھی درختوں کے لیے جنگل کی کمی محسوس کرنا آسان ہوتا ہے۔ ہم ان چیزوں پر بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں، جو کچھ ہمارے سامنے ہو۔ اس طرح ہم بڑا منظر دیکھنے سے محروم ہو سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں اور ہمیں انہیں سننے کی ضرورت ہے۔
شدید گرمی کی لہر اور خشک سالی چین کو مسلسل 70 دن سے متاثر رہی ہے، جس کی ’اس ضمن میں چین یا دنیا بھر کے جدید ریکارڈ میں کوئی مثال نہیں ہے۔‘
چین کے ہمسایہ ملک پاکستان میں ’بڑے پیمانے پر ہونے والی موسلا دھار بارشوں‘ کے نتیجے میں اب تک 900 (سے زائد) افراد ہلاک اور تقریباً ایک لاکھ مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت اس سال اب تک شدید گرمی کے 200 دن کا شکار ہو چکا ہے۔ گذشتہ سال یہ تعداد صرف 32 تھی۔
جنوبی کوریا میں سیئول میں 80 سال کے دوران فی گھنٹہ سب سے شدید بارش ہوئی، جس سے دارالحکومت میں سیلاب آ گیا اور 50 شہروں اور قصبوں کو پہاڑی تودے گرنے کے حوالے سے خبردار کیا گیا۔
یقینی طور پر مغربی ممالک بھی بچ نہیں پائے۔ جولائی کی ہیٹ ویو جس نے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا، اس نے ملک بھر میں زیادہ درجہ حرارت کے ساڑھے تین سو ریکارڈ قائم کیے اور دیگر انتہائی موسمی واقعات جیسے کہ سیلاب اور سمندری طوفان کے مقابلے میں زیادہ لوگ جان سے گئے۔
یورپ پانچ سو سال کی بدترین خشک سالی سے گزر رہا ہے اور برطانیہ نے 1976 کے بعد سے بدترین خشک سالی اور گرمی کی لہر کا سامنا کیا ہے۔ متوقع طوفانی بارشوں سے محض یہ احساس بڑھتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت ہو سکتی ہیں۔
یہ سب اتفاقات نہیں ہو سکتے۔ آخری بار کب ہماری دنیا ایک ہی وقت میں اتنے شدید موسمی حالات سے متاثر ہوئی تھی؟ بلاشبہ، یہ موسمیاتی بحران کے اثرات ہیں اور صرف اس بات کی علامت ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔
گرمی، خشک سالی اور سیلاب سے متاثرہ افراد پر اس کا فوری اثر محسوس ہوگا، لیکن سونامی کی طرح بڑی لہریں آنے والی ہیں جو کہیں زیادہ نقصان پہنچائیں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین میں شدید گرمی کی لہر نے نہ صرف اس کے بہترین کھیتوں کے بڑے حصے کو تباہ کیا اور نقصان پہنچایا بلکہ اس نے سینکڑوں دریا خشک کر دیے، جن میں دریائے یانگزی کے کچھ حصے بھی شامل ہیں، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا دریا ہے۔ گرمی کی لہر نے جہاز رانی اور پن بجلی کی پیداوا روک دی اور بہت سی کمپنیوں کو بند ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ چین کو خوراک کی کمی پورا کرنے کے لیے بڑی مقدار میں خوراک اور توانائی درآمد کرنے کی ضرورت پڑے گی، جس سے پہلے سے ہی دباؤ کا شکار دنیا مزید دباؤ میں آئے گی۔
رواں موسم گرما میں جرمنی بھی اسی مسئلے دوچار ہوا ہے کیوں کہ وہاں دریا خشک ہو چکے ہیں اور نقل و حمل، توانائی کی پیداوار، جنگلی حیات اور کھیتی باڑی کو نقصان پہنچا ہے۔ ان حالات میں توانائی کی بلند قیمتیں پہلے ہی یورپ اور دنیا بھر میں کاروباری سرگرمیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہیں۔
ہر طرف خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ ہم ان کو مسلسل نظر انداز نہیں کر سکتے۔ موسمیاتی بحران صرف گرمی کی لہروں، خشک سالی اور سیلاب میں محسوس نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ خوراک، اشیا اور توانائی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی شکل میں بھی محسوس کیا جائے گا۔ اسے قحط، پانی کی قلت اور بھوک سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی کے ذریعے محسوس کیا جائے گا۔
یہ موسمیاتی بحران ایک ایسی دنیا میں محسوس کیا جائے گا، جو موجودہ دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ عدم استحکام کا شکار ہوگی۔
ہم اس مقام پر ہیں جہاں سے مسئلے کا آغاز ہو رہا ہے۔ جب تک حکومتوں اور کمپنیوں پر کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی لانے کے لیے زور نہیں دیا جاتا، یہ دنیا جسے ہم جانتے ہیں ہماری آنکھوں کے سامنے بکھرجائے گی۔ اگر بنیادی اشیا جیسے خوراک، پانی اور توانائی کی قلت ہوئی تو جس رفتار سے معاشرہ تباہی کی طرف جائے گا ہم ہل کر رہ جائیں گے۔
2030 بلکہ 2050 میں نیٹ زیرو (کاربن کے اخراج کے مکمل خاتمے) کو بھول جائیں، ہم اتنی دیر تک انتظار نہیں کر سکتے۔ اگر ہم نے بجتے ہوئے اس سائرن پر اب توجہ نہ دی تو اگلی بار بہت دیر ہو چکی ہو گی۔
© The Independent