بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین کا کوئٹہ میں پچاس دنوں سے جاری دھرنا جمعرات کو وفاقی حکومت کے وزارتی و پارلیمانی وفد کے ساتھ مذاکرات کے بعد ختم ہو گیا۔
مذاکرات کی کامیابی کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’گذشتہ پچاس دنوں سے دھرنا دینے والوں نے حکومت پر اعتماد کرکے لاپتہ افراد کے لیے دھرنا ختم کردیا ہے۔ لواحقین حکومتی کمیٹی کی مدد کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔ ایوان کی کمیٹی از خود آئی ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ میڈیا میں اوپن نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین دوبارہ دھرنے کی طرف نہ جائیں۔‘
رانا ثنااللہ کے مطابق ’لواحقین کا بڑا مطالبہ ہے کہ اگر ان کے پیارے کسی مقدمے میں مطلوب ہیں تو ان کا انکاؤنٹر نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ایسے واقعات کا تدارک کیا جائے گا۔‘
اس موقعے پر وفاقی وزیر تخفیف غربت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ ’ایوان کی کمیٹی پورے ملک کی نمائندگی کر رہی ہے۔ ملک سے باہر لوگوں کو موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ اس کے ذریعےمنفی پروپیگنڈا کریں۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان تباہ کن سیلاب کی زد میں ہیں۔ میں سانگھڑ سے یہاں آئی ہوں۔ حکومت کو ان بہنوں اور ماؤں کا احساس ہے جو دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ ہر محب وطن چاہتا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو۔ ان ماؤں بہنوں کو اسلام آباد لے کر جانا ہے۔‘
کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے کہا کہ یہ ’لاپتہ افراد کے ساتھ ساتویں ملاقات تھی۔ اس عزم کے ساتھ واپس جا رہے ہیں کہ دو ماہ میں عملی اقدام نظر آئیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ نے کہا کہ ’ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ بلوچستان میں سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ آج لاپتہ افراد کی بیٹیوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔‘
دھرنے کی قیادت کرنے والی، لاپتہ دین محمد بلوچ کی بیٹی‘ سمی دین محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آج ہمارے دھرنےکو پچاس دن ہوگئے ہیں۔ ہم نے اکیس جولائی سے یہ دھرنا شروع کیا تھا۔
’ہمارا مطالبہ یہی تھا کہ جو زیارت کا واقعہ ہوا ہے، جس میں ایک لاپتہ فرد مارا گیا، اس کے ساتھ جو ہمارے لوگ جو کئی سالوں سے لاپتہ ہیں، ان کی بازیابی کب ہو گی اور ہم کب تک اس خدشے میں ہوں گے کہ ان کو بھی اس طرح نہ ماردیا جائے؟‘
سمی نے بتایا کہ ’کمیٹی کی طرف سے اعظم نذیر تارڑ نے ہمارے مطالبات پر دستخط کیے اور سب کے سامنے اس بات کا وعدہ کیا کہ اس کے لیے انہیں تین مہینے کا وقت دیا جائے۔ جس کے دوران وہ سو فیصد نتائج دیں گے۔‘
کمیٹی نے دھرنے کے شرکا کو بتایا کہ ’اگر تین مہینے کے دوران وہ کچھ نہ کر سکے تو اس کے بعد کمیٹی کے ممبران بھی ہمارے اس ریڈ زون میں آ کر بیھٹیں گے۔ ہم نے ان کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کر دیا ہے۔‘
دھرنے کے شرکا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’اس معاملے میں حکومت سنجیدہ ہے۔ میری جتنی کوشش ہو گی، میں آپ لوگوں کا مقدمہ کابینہ اور حکومت کے سامنے رکھوں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ „ہم دو مہینے میں اپنی رپورٹ مکمل کرلیں گے مزید چار ہفتے اس لیے مانگے تاکہ اس پر عمل درآمد بھی ہو جائے۔ یہ دس بیس پندرہ سال کے مسئلے ہیں۔ چار چھ دن میں میں کہوں کہ حل ہوجائیں گے تو میں جھوٹ کہوں گا۔
دھرنے کی دوران بلوچستان کی صوبائی حکومت نے زیارت واقعے کے حوالے ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ایک رکنی جوڈیشل کمیشن بھی بنایا تھا لیکن کوئی پیش رفت سامنے نہ آ سکی۔
صوبائی حکومت کی طرف سے ایک پارلیمانی کمیٹی اور مشیر داخلہ ضیا لانگو نے دھرنے والوں سے مذاکرات کیے لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔