یہ ایک اہم شاہراہ کا منظر ہے۔ جس کو رکاوٹیں لگا کر اور خاردار تاریں لگا کر ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ پولیس کی اہلکار بھی کھڑے ہیں۔ جو لوگوں کو یہاں سے گزرنے سے منع کرتے ہیں۔ اس کے اندر چند ٹینٹ لگے ہیں۔ جن میں کچھ خواتین اور بچے بھی ہیں۔
یہ خواتین اور بچے لاپتہ افراد کے لواحقین ہیں جو گذشتہ ایک ماہ سے یہاں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اس شاہراہ کے ایک طرف ٹھنڈی سڑک ہے جس کو ریڈ زون کا نام دے کر عام لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا اور جہاں پر وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس اور سول سیکرٹریٹ کی عمارتیں ہیں۔
شاہراہ کی دوسری طرف نظر دوڑائیں تو کچھ فاصلے پر اسمبلی کی عمارت ہے۔ جہاں صوبے کے عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے عوام مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔
شاہراہ کی بندش سے شہر بھر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے اور شہری گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔ جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے 23 اگست کو جی پی او چوک سمیت صوبائی اسمبلی کے سامنے کی سڑک بھی بند کر دی جس سے شہر بھر میں گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔
دھرنے میں سیما بلوچ بھی شریک ہیں جو ضلع آواران سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ ضلع بلوچستان کےوزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کا آبائی علاقہ اور حلقہ بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے لاپتہ بھائی شبیر بلوچ کی بازیابی کے لیے گذشتہ چھ سالوں سے سڑکوں پر جدوجہد کر رہی ہوں۔
سیما نے بتایا کہ ’میرے بھائی کو 25 لوگوں کے ساتھ لاپتہ کیا گیا۔ باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے لیکن میرے بھائی کا آج تک پتہ نہیں کہ کہاں پر ہیں۔ زیارت واقعے نے ہمیں مزید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مطالبات سادہ ہیں کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو عدالتوں میں لاکر پیش کیا جائے۔ اگر آپ کو اپنی عدالتوں پر اعتبار نہیں تو ہم کہاں جائیں؟ اس کے ساتھ ہمیں جو یہاں پر لاپتہ افراد کی مائیں بہنیں بیٹھی ہیں ان کو یقین دلایا جائے کہ ان کے پیاروں کی لاشیں نہیں پھینکی جائیں گی۔‘
سیما کہتی ہیں کہ 'ہم جب سے یہاں بیٹھے ہیں تو بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پہلے تو بہت گرمی تھی جس کے باعث ہمارے کیمپ میں موجود مائیں اور بچے بیمار ہونے لگے۔
’کچھ دنوں تک شدید بارشیں ہوتی رہیں۔ جب بارش ہو رہی تھی تو ہمارے ٹینٹ اور بستر گیلے ہو گئے اور ہم نہیں جانتے کہ کہاں جا کر اس سے بچیں۔‘
حکومتی کمیٹیوں کے مذاکرات
سیما نے بتایا کہ ’حکومت کے نمائندے پہلے بھی دو تین دفعہ آئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آپ اٹھ جائیں۔ آپ کے مطالبات بہت بڑے ہیں۔ یہ ہمارے بس میں نہیں ہیں۔ گذشتہ روز جو لوگ آئے تھے، وہ بھی کہہ رہے تھے کہ بارش ہو رہی ہے۔ آپ لوگ دھرنا ختم کر دیں۔‘
ان کے بقول: ’حکومتی وفد نے کہا کہ شاید آپ کا مسئلہ حل ہو جائے۔ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو آپ دوبارہ یہاں آ سکتی ہیں۔ اس لیے ہم نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیما نے کہا کہ ’ہم یہاں 32 دنوں سے بیٹھے ہیں۔ میرے ساتھ میری چھوٹی بیٹی بھی ہے جو سات ماہ کی ہے۔ وہ یہاں پر بیمار ہوتی ہے۔ میرا گھر بھی ہے اور میں شادی شدہ ہوں۔ لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ اس کو اپنے گھر اور بچوں کی پروا نہیں۔ سڑکوں پر بیٹھی ہے۔‘
سیما کہتی ہیں کہ ’ہم نے مذاکراتی کمیٹی کو بتا دیا ہے کہ ہم سے مذاکرات نہ ہوئے اور ہمارے لوگوں کے بارے میں نہ بتایا گیا تو ہم دوبارہ احتجاج کو وسعت دے کر جی پی او چوک اور اسمبلی کے سامنے دھرنا دیں گے۔ کیوں کہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے حکومتی موقف لینےکے لیے مذاکراتی کمیٹی میں شامل ممبر صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید دہوار سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے واٹس ایپ میسج کو دیکھ کر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
مذاکراتی کمیٹی کے دھرنے کے شرکا سے ملاقات کے بعد 21 اگست کو جاری کیے گئے سرکاری بیان میں محکمہ اطلاعات بلوچستان نے کہا تھا کہ ’وزیراعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر سینیئر صوبائی وزیر نور محمد دمڑ، پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند، اراکین صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو اور شکیلہ نوید دہوار نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے ریڈ زون پر لگائے دھرنا کیمپ کا دورہ کیا اور لواحقین سے دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے مدلل مزکرات کیے۔‘
سینیئر صوبائی وزیر نے لواحقین کے مطالبات کے حوالے سے آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت نے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل کمیشن قائم کیا تھا جو اپنا کام کر رہا ہے۔‘
اس کے علاوہ صوبائی کابینہ کے گذشتہ اجلاس میں لاپتہ افراد کے حوالے سے اعلیٰ اختیاراتی پارلیمانی کمیشن کے قیام کی منظوری دی گئی جس میں حکومت اور اپوزیشن کے دو دو اراکین صوبائی اسمبلی شامل ہوں گے۔ کمیشن لاپتہ افراد کے ایک ایک کیس کا جائزہ لے کر ان کی بازیابی کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔
وفد نے دھرنے کے شرکا کو صوبے میں بارشوں کی حالیہ صورتحال اور حکومتی امدادی کاروائیوں سے متعلق بتایا کہ ’اس وقت تمام حکومتی مشینری صوبے کے لاکھوں متاثرین کی امداد میں مصروف ہے جب کہ گذشتہ کئی روز سے دھرنے کے باعث کوئٹہ کی مصروف سڑک بند ہونے سے شہری مشکلات اور مسائل کا شکار ہیں۔
’یہ تمام عوامل تقاضا کرتے ہیں کہ دھرنے کے شرکا فوری طور پر دھرنا ختم کر کے صوبے کے عوام کو ایک مثبت پیغام دیں۔‘
کافی دیر جاری رہنے والے مذاکرات اس وقت کامیابی حاصل نہ کر سکے جب لاپتہ افراد کے لواحقین نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔