وہ چشمہ لگائے، نہایت انہماک سے کالے کینوس پر تنکوں سے تصویریں بنا رہے تھے۔ سرعت کے ساتھ چلتے ان کے بوڑھے ہاتھوں کی انگلیوں کی پوروں پر جگہ جگہ سفید گوند چپکا ہوا تھا، تاہم تصویر پر کام کافی نفاست اور صفائی سے جاری تھا۔
سید عابد شاہ نامی اس آرٹسٹ کو میں نے پہلے بھی ایک بار پشاور صدر میں ایک فٹ ہاتھ پر دیکھا تھا، ہماری سرسری سی بات بھی ہوئی تھی، انہوں نے اپنا رابطہ نمبر بھی دیا تھا، لیکن نہ جانے کیوں پھر وہ نمبر کبھی لگا ہی نہیں۔
18 ستمبر 2022 کو دوبارہ انہیں تب دیکھا جب پشاور میں چھوٹی صنعتوں کو مارکیٹ میں متعارف کروانے اور ان کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ یہ نمائش خواتین ایوان صنعت و تجارت، سرحد ایوان صنعت و تجارت، ال حیات گروپ آف کمپنیز اور خیبر پختونخوا بورڈ آف انوسٹمنٹ کی مشترکہ کاوش کے تحت ایک منعقد کی گئی تھی۔
اس موقعے پر اس بزرگ آرٹسٹ کے ہمراہ ان کا ایک نوجوان بیٹا بھی تھا، جو تصویریں کبھی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ رہا تھا، تو کبھی خریداروں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔
اس سٹال میں بالآخر آج وہ تصویر بھی دیکھی، جس کے بارے میں انہوں نے مجھے پچھلی ملاقات میں بتایا تھا، لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھی۔
یہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی تصویر تھی، جو انہوں نے اس غرض سے بنائی ہے تاکہ یہ تصویر ان کے عمرے پر جانے کا ایک وسیلہ بن جائے۔
تفصیلی بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ دراصل انہوں نے دو تصاویر بنائی ہیں جن پر کُل ایک ماہ کا وقت لگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عابد شاہ نے بتایا کہ انہوں نے 50 سال اس فن میں گزارے، جس میں نہ صرف انہوں نے چار بچوں کو بڑا کیا، دو بیٹیوں کی شادیاں کیں بلکہ ان کو اعلیٰ تعلیم بھی دلوائی۔ ’بس اب چاہتا ہوں کہ عمرہ کر لوں۔ کیونکہ اب نہیں کروں گا تو پھر کب کروں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ جس آرٹ سے وابستہ ہیں اسے ’سٹرا آرٹ‘ کہتے ہیں، جو دو سو سال پرانا فن ہے اور اب ایشیا سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
’پورے پشاور میں، میں واحد شخص ہوں جو گندم کے تنکے کے آرٹ سے وابستہ ہے۔ اب اپنے بیٹے کو بھی سکھا دیا ہے۔‘
عابد شاہ نے بتایا کہ وہ اکثر تمام رات فن پاروں پر کام کرتے ہیں، کیونکہ یہی ان کی روزی روٹی ہے۔
’کبھی کبھی دنوں اور ہفتوں کچھ نہیں بکتا۔ اسی میں جوانی گزار دی اور اب تو بڑھاپا ہے، اس کے علاوہ اور کیا کرسکتا ہوں۔‘
سید عابد شاہ نے تنکوں سے خطاطی سمیت مختلف ڈیزائنز بنائے ہیں، جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کام کے لیے مہارت کے ساتھ ذہن کی وسعت بھی چاہیے، جو کہ ان کے پاس ہے۔
تاہم، نایاب فنون کی حوصلہ افزائی کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو نہ صرف مزید پھیلانے کے لیے حکومتی سطح پر کوششیں کی جائیں بلکہ ایسے فنکاروں کو بھی تسلیم کیا جائے۔