سائنس دانوں کی نئی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ رحم میں موجود بچے اپنی ماؤں کے کھانے پینے پر ردعمل دیتے ہیں، ماؤں کی جانب سے سبز سبزیاں چکھنے اور سونگھنے پر وہ منہ بنا لیتے ہیں اور گاجر کھانے پر وہ مسکراتے بھی ہیں۔
اس تاریخی مطالعے میں سائنس دانوں نے اس بات کے شواہد پیش کیے ہیں کہ بچے اپنے چہرے کے تاثرات دیتے ہوئے رحم میں رہتے ہوئے مخصوص بو اور ذائقے کے لیے مختلف ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
ڈرہم یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اس تحقیق کے دوران 100 حاملہ خواتین کے فور ڈی الٹراساؤنڈ سکین کیے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کی ماؤں کی جانب سے کھائے جانے والے کھانوں کے ذائقوں پر پیٹ میں موجود بچے کیسا ردعمل دیتے ہیں۔
ماؤں کی جانب سے گاجر کھانے کے بعد سب سے زیادہ بچوں نے ’مسکرا کر‘ اپنا ردعمل ظاہر کیا جب کہ سبز گوبھی کھانے پر انہوں نے ’رونے والے چہرے‘ بنا کر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔
جریدے ’سائیکولوجیکل سائنس‘ میں ہونے والا یہ مطالعہ اس بات کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ انسان ذائقے اور بو کے لیے کیسے رسیپٹرز پیدا کرتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ حمل کے دوران مائیں جو کچھ کھاتی ہیں وہ پیدائش کے بعد بھی بچوں کے ذائقے کی ترجیحات کو متاثر کر سکتی ہیں اور اس کے صحت مند کھانے کی عادات جیسے اثرات ہو سکتے ہیں۔
تحقیق کے ایک حصے میں ماؤں کی 32 اور 36 ہفتوں کے حمل کے دوران سکیننگ کی گئی تاکہ پیٹ میں موجود بچوں کے چہروں کے سبز گوبھی اور گاجر کے ذائقوں پر رد عمل کو دیکھا جا سکے۔
انہیں ہر سکین سے 20 منٹ پہلے تقریباً 400 ملی گرام گاجر یا 400 سبز گوبھی کے پاؤڈر پر مشتمل ایک کیپسول دیا گیا اور انہوں نے سکیننگ سے ایک گھنٹہ پہلے تک کچھ بھی کھانے سے گریز کیا۔
دونوں گروپوں میں بچوں کے چہرے کے رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ گاجر یا سبز گوبھی کے ذائقے کی تھوڑی سی مقدار بھی ان کے ردعمل کو متحرک کرنے کے لیے کافی تھی۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچے رحم میں امینیٹک فلوئڈ (رحم میں موجود سیال مادہ) کو نگلنے اور سانس کے ذریعے اندر لے جانے کے عمل کے دوران ذائقے کا احساس کرتے ہیں۔
تحقیق کی قیادت کرنے والی پوسٹ گریجویٹ بیزا یوستن نے اس حوالے سے بتایا: ’متعدد مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بچے رحم میں ذائقہ اور بو سونگھ سکتے ہیں لیکن یہ تمام مطالعے پیدائش کے بعد کے نتائج پر مبنی ہیں جب کہ ہماری تحقیق پیدائش سے پہلے ان کے ردعمل کو دیکھنے والا پہلا ایسا مطالعہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’اس تحقیق کے نتیجے کے بعد ہمارا خیال ہے کہ پیدائش سے پہلے ذائقوں پر بچوں کا یہ بار بار اظہار پیدائش کے بعد بھی ان کی کھانے کی ترجیحات قائم رکھنے میں مدد کر سکتا ہے اور یہ صحت مند کھانے کے بارے میں اور دودھ چھڑاتے وقت ’کھانے میں تنگ‘ کرنے کی پریشانی سے بچنے کی صلاحیت کے بارے میں اہم ہو سکتا ہے۔‘
ان کے بقول: ’سکین کے دوران سبز گوبھی یا گاجر کے ذائقوں پر پیٹ میں موجود بچوں کا رد عمل دیکھنا اور ان لمحات کو ان کے والدین کے ساتھ شیئر کرنا واقعی حیرت انگیز عمل تھا۔‘
تحقیق کی شریک مصنفہ اور فیٹل اینڈ نیونیٹل ریسرچ لیب کی سربراہ پروفیسر ناجا ریسلینڈ نے کہا: ’یہ تازہ ترین مطالعہ رحم میں موجود بچوں کی صلاحیتوں کے ابتدائی شواہد کو سمجھنے کے لیے اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے کہ وہ کیسے اپنی ماؤں کے ذریعے کھائے جانے والے کھانے کے مختلف ذائقوں اور بو کو سمجھنے اور ان میں فرق کر سکتے ہیں۔‘
تحقیق کی شریک مصنفہ اور آسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر جیکی بلیسیٹ نے کہا: ’یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ماؤں کی جانب سے قبل از پیدائش بار بار کھائے گئے ذائقے پیدائش کے بعد بھی ان بچوں کے ذائقوں کے لیے ترجیحات کا باعث بن سکتے ہیں۔
ان کے بقول: ’دوسرے لفظوں میں بچوں کو ’کم پسندیدہ‘ ذائقے جیسے سبز گوبھی کو بار بار کھانے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے رحم میں ہی ان ذائقوں کے عادی ہو جائیں۔
’اگلا مرحلہ یہ جانچنا ہے کہ آیا رحم میں موجود بچے وقت کے ساتھ ساتھ ان ذائقوں کے بارے میں کم ’منفی‘ ردعمل ظاہر کرتے ہیں جب وہ پہلی بار دنیا میں آنے کے بعد پہلی بار انہیں چکھتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ذائقوں کو زیادہ اور جلدی قبول کر لیں۔‘
اس مضمون کی تیاری میں ایس ڈبلیو این ایس کی اضافی معلومات شامل ہیں۔
© The Independent