امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ واشنگٹن نے ماسکو کو نجی طور پر متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملے میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا تو اس کے ’تباہ کن‘ نتائج ہوں گے۔
روس کے صدر ولادی میر پوتن نے بدھ کو ایک تقریر میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی تھی جس میں انہوں نے یوکرین کی روسی افواج کے خلاف زمینی کامیابیوں کے بعد ریزرو افواج کو متحرک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اتوار کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں ان اطلاعات کی تصدیق کی کہ امریکہ نے روس کو جوہری جنگ سے دور رہنے کے لیے نجی وارننگ بھیجی ہے۔
انٹینی بلنکن نے ’سی بی ایس نیوز‘ کے پروگرام ’60 منٹس‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ہم روسیوں کے ساتھ عوامی اور نجی طور پر واضح الفاظ میں بات کی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے بارے میں باتیں روکی جائیں۔‘
امریکی وزیر خارجہ نے کہا: ’یہ بہت اہم ہے کہ ماسکو ہماری بات سنے اور جان لے کہ اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔ اور ہم نے یہ بہت واضح کر دیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی استعمال سے یقیناً نہ صرف ان کو استعمال کرنے والے ملک بلکہ دوسرے ممالک کے لیے بھی تباہ کن اثرات ہوں گے۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی اتوار کو ایسا ہی بیان دیا۔
ایک علیحدہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ امریکہ نے روس کو جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر ’تباہ کن نتائج‘ کے بارے میں ’انتہائی اعلیٰ سطح‘ پر متنبہ کیا ہے۔
سلیوان نے ’سی بی ایس‘ کے پروگرام ’فیس دا نیشن‘ میں کہا: ’امریکہ اور اس کے اتحادی فیصلہ کن جواب دیں گے۔ ہم اس کے بارے میں واضح ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔‘
روس اور امریکہ دنیا کی سب سے بڑی جوہری طاقتیں ہیں۔ تباہی کے خطرات قطع نظر، روسی فوجی ڈاکٹرائن دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کی غرض سے میدان جنگ میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ میں ہفتے کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران جب صحافیوں نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ولادی پوتن کے بیان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ماسکو کا ڈاکٹرائن ایک ’کھلی دستاویز ہے۔‘
یوکرین کے صدر وولودی میرزیلنسکی نے 'فیس دی نیشن' کو بتایا کہ ولادی میر پوتن کی درپردہ جوہری دھمکی ’ایک حقیقت ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یوکرین میں جوہری بجلی گھروں میں روسی فوجی سرگرمی’ان کی جوہری بلیک میلنگ کا پہلا قدم ہے۔‘
یوکرین کے رہنما نے روسی صدر کے بارے میں کہا کہ ’وہ پوری دنیا کو ڈرانا چاہتے ہیں۔
’مجھے نہیں لگتا کہ وہ دھوکہ دے رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ دنیا انہیں روک رہی ہے اور اس خطرے پر قابو پا رہی ہے۔ ہمیں ان پر دباؤ ڈالتے رہنا چاہیے اور اسے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔‘
ریفرنڈم
خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یوکرین کے چار مشرقی علاقوں میں ووٹنگ، جس کا مقصد روس کے زیر قبضہ علاقوں کو ضم کرنا ہے، اتوار کو تیسرے دن بھی جاری رہی۔ روسی پارلیمنٹ چند دنوں کے اندر الحاق کو باضابطہ شکل دینے کے لیے کارروائی آگے بڑھا سکتا ہے۔
لوہانسک، دونیتسک، کھیرسن اور زاپوریزہیا کے علاقوں کو روس میں شامل کر کے، ماسکو ان کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں کو خود روس پر حملوں کے طور پر پیش کر سکتا ہے، یہ کیئف اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے ایک انتباہ ہے۔
وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ہفتے کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں یہ نکتہ مزید براہ راست اٹھایا جس میں انہوں نے حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے ماسکو کے دعووں کو دہرایا کہ کئیف میں منتخب حکومت غیر قانونی طور پر قائم کی گئی اور نیونازیوں سے بھری ہوئی تھی۔
یوکرین اور اس کے اتحادیوں نے ریفرنڈم کو ایک دھوکہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے جو کہ جنگ میں اضافے اور ماسکو کی جانب سے حالیہ میدان جنگ میں ہونے والی شکستوں کے بعد متحرک ہونے کی مہم کو جواز فراہم کرنے کے لیے کرایا گیا۔
چاروں علاقوں میں روسی افواج کے زیر کنٹرول علاقہ یوکرین کے تقریبا 15 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے ، جو تقریبا پرتگال کے سائز کا علاقہ ہے۔
اس سے کریمیا میں اضافہ ہوگا، جو بیلجیم کے سائز کے قریب ایک علاقہ ہے جس کے بارے میں روس کا دعویٰ ہے کہ اس نے 2014 میں الحاق کیا تھا۔