صوبائی دارالحکومت پشاور میں پولیس نے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے والے اساتذہ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا جبکہ جواب میں مظاہرین کی جانب سے بھی پتھراؤ کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے جمعرات کو پشاور آنے والے سرکاری پرائمری سکولوں کے اساتذہ نے اپنے مطالبات کے حق میں صوبائی اسمبلی کے باہر دھرنا دے رکھا ہے جبکہ لڑکوں کے تمام پرائمری سکول احتجاجاً بند ہیں۔
دھرنے میں موجود شرکا نے جمعرات کی صبح سے پشاور کے مصروف خیبر روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے عام شہریوں کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا رہا۔
تاہم بعد میں پولیس نے ان دھرنا شرکا کو منشتر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا جبکہ مظاہرین کی جانب سے بھی جواب میں پولیس پر پتھراؤ کیا جاتا رہا۔
موقع پر موجود پولیس اہلکار مظاہرین سے روڈ خالی کرنے کا کہہ رہے ہیں لیکن مظاہرین دھرنے کی جگہ سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
اساتذہ پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال پر صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ ’اساتذہ آج صبح سے احتجاج کر رہے ہیں اور ہم نے انہیں احتجاج سے نہیں روکا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’مظاہرین نے سڑکیں بھی بند کیں جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن مظاہرین کو پھر بھی نہیں روکا گیا۔‘
’اگر پولیس نے ایسا کچھ کیا ہے تو ہم اس کو دیکھیں گے کہ کوئی غیر قانونی ایکشن تو نہیں لیا گیا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیرسٹر سیف نے بتایا کہ ’اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین ہوں گے تو ہلکی پھلکی مار پٹھائی ہو جاتی ہے۔ اساتذہ کے جو قانونی مطالبات ہیں، ہم ان کو سنیں گے اور ان کو حل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔‘
اساتذہ کے مطالبات کیا ہیں؟
خیبر پختونخوا حکومت نے رواں سال جولائی سے ’پینشن ریفارمز‘ کے نام سے پینشن کے نظام میں تبدیلی کی ہے اور پرانے پینشن نظام کو ختم کر دیا ہے یعنی جولائی 2022 سے نئے بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین پر نیا پینشن نظام لاگو ہوگا۔
صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے رواں سال جون میں انڈپینڈنٹ اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس نئے نظام کو ’کنٹری بیوٹری فنڈ‘ کہا جائے گا جس میں ملازم کی جانب سے ایک حکومتی فنڈ میں تنخواہ سے کچھ پیسے دیے جائیں گے۔
تیمور سلیم جھگڑا نے اس نئے نظام کے بارے میں بتایا تھا ’اگر ایک ملازم کی پچاس ہزار تنخواہ ہے، تو اس فنڈ میں پانچ ہزار ملازم اور سات ہزار تک حکومت جمع کرے گی اور حکومت اس فنڈ سے سرمایہ کاری کرے گی جس سے بعد میں ملازمین کو پنشن دی جائے گی۔‘
اب یہ اساتذہ اسی نئے پینشن نظام کو ختم کرکے پرانے نظام کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر عزیز اللہ کہتے ہیں کہ اساتذہ کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ پرائمری سکولوں میں اساتذہ بھرتی کے لیے ٹیچرز سکیل 12 ہے، اس کو 15 سکیل کیا جائے۔
’سیکنڈری سکولوں میں بیچلر تعلیم پر بھرتی سکیل 15 میں کی جاتی ہے لیکن اسی تعلیمی قابلیت پر پرائمری سکولوں میں بھرتیاں 12 سکیل میں کی جاتی ہیں جو سراسر ظلم ہے۔‘