’ بیک یارڈ الٹرا ‘ نامی اس ریس میں ہر کھلاڑی نے ایک گھنٹے میں 6.7 کلومیٹر کا سفر بھاگ کر طے کرنا ہے۔
’ بیک یارڈ الٹرا ‘ چیمپئین شپ میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے 43 ممالک شرکت کر رہے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں پاکستان سے 15 رنرز نے حصہ لیا تھا۔ 48 گھنٹوں بعد اب صرف دو کھلاڑی بھاگ رہے ہیں۔
آخری دو کھلاڑی جو اب بھی پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں ان میں جمال سید اور فضہ محمد شامل ہیں۔
یہ ریس 15 اکتوبر کی شام پانچ بجے شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے۔
ریس کے آرگنائزر جاوید علی کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ دنیا کی ایک منفرد ریس ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ’ اگر ایک کھلاڑی نے 40 سے 50 منٹ میں ایک لوپ مکمل کر لیا تو پھراگلا لوپ شروع ہونے سے پہلے اس کے پاس چند منٹ موجود ہوتے ہیں باتھ روم جانے یا کھانے پینے کے لیے۔
جس کے بعد اگلا گھنٹہ شروع ہوتے ہی ایک بیل بج جائے گی جس کے بعد دوڑ دوبارہ جاری ہو جاتی ہے۔‘
اس ریس کے دوران کھلاڑی دو دنوں سے جاگے ہوئے ہیں اور مسلسل دوڑے چلے جا رہے ہیں۔
انتظامات
اس ریس کو اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں منعقد کیا گیا ہے۔ ایف نائن پارک کا وہ گیٹ جو ایف ایٹ سیکٹر کے سامنے موجود ہے۔ یہاں سے داخل ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بڑا سا شامیانہ موجود ہے۔ اس شامیانے کے اندر آرگنائزر اور کھلاڑیوں کے گھر والوں کے کیمپس موجود ہیں جہاں وہ پچھلے کئی دنوں سے رہ رہے ہیں۔
کھلاڑی اپنا لوپ مکمل کرنے پر یہاں آتے ہیں جہاں ان کی فیملیز اور ٹیم ممبر ان کو پروٹین شیک، پانی اور دیگر غذائی اشیا کھلاتے پلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ان کی ٹانگوں پر مالش کرتے ہیں تا کہ ان کی تھکاوٹ کچھ کم ہو سکے۔
اس کے ساتھ ہی ریس انتظامیہ کمپیوٹر اور کیمروں کی مدد سے کھلاڑیوں کے لوپ مکمل کر کے آنے اور جانے کے اوقات نوٹ کرنے میں مصروف ہے۔
جیت کس کی ہو گی؟
اس ریس کی شروعات 15 اکتوبر کو شام پانچ بجے سے 15 کھلاڑیوں سے ہوئی لیکن اختتام کب ہو گا ؟ اس کا فیصلہ آخری دو کھلاڑی کریں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آخری دو کھلاڑیوں میں سے ایک کھلاڑی جو ہمت ہار کر رُک جائے یا وہ لوپ ختم ہونے کے وقت یعنی ایک گھنٹے کے بعد اپنے کیمپ میں پہنچے۔ تو وہ کھلاڑی جو آخر تک دوڑتا رہے گا، ریس کا فتح قرار پائے گا۔