پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ واشنگٹن کو امریکی دارالحکومت میں موجود سیاسی مبصرین دونوں ملکوں کے کافی عرصے سے سرد مہری کے شکار سفارتی تعلقات میں بہتری کی جانب ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ تنبیہ کر رہے ہیں کہ اس دورے سے کسی معجزے کی توقع نہ کی جائے۔
عمران خان اس دورے کے خاتمے پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جہاز میں بیٹھا کر اپنے ساتھ واپس پاکستان لے جا رہے ہیں اور نہ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی خرید و فروخت پر کوئی حتمی معاہدہ کررہے ہیں۔
یہاں اس بات پر زیادہ تعجب کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ماضی قریب میں ٹوئٹر پر لفظوں کی جنگ لڑنے والے ٹرمپ اور خان صاحب یکدم کیسے ایک دوسرے سے ملنے پر راضی ہوگئے۔
جہاں ایک طرف خان صاحب کئی سالوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور خاص کر امریکہ کی طرف جھکاؤ پر شدید نالاں تھے تو دوسری طرف ٹرمپ نے بھی وائٹ ہاوس میں آتے ہی پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی کہ امریکہ سے پیسے لینے کے باوجود پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں صیح معنوں میں تعاون نہیں کررہا۔
خود پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی شدید مخالفت بڑی حد تک خان صاحب کا سیاسی گراف بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوئی اور انھوں نے پچھلےسال اقتدار میں آتے ہی عندیہ دیا کہ اب پاکستان امریکہ کے اشاروں پر چلنے کے بجائے ایک آزاد اور خود مختار مُلک کی حثییت سے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرے گا۔
نرم رویہ
واشنگٹن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ایک سال کے بعد پی ٹی آئی حکومت بالآخر امریکہ سے ٹکراؤ کے بجائے اپنے لہجے اور رویے میں نرمی لانے پر مجبور ہو گئی ہے۔
اس کے وجہ ایک تو بھارت کے ساتھ حالیہ جنگی صورت حال اور گھمبیر معاشی حالت تھی جس نے نا صرف پاکستان کو آئی ایم ایف کی دہلیز پر لاکھڑا کیا بلکہ پی ٹی آئی حکومت کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ امریکہ اب بھی دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے اور اس سے دشمنی مول لینا اور صرف چین پر انحصار کرنا دانش مندانہ خارجہ پالیسی نہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی کے پروفیسر اور کئی کتابوں کے خالق ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے تنا ظر میں پاکستان کو احساس ہوا ہے کہ اگر بھارت کامقابلہ کرنا ہے تو خود کو سفارتی محاذ پر تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ بقول ان کے، پاکستان اس وقت مجبوری کی حالت میں امریکہ کے پاس آ رہا ہے اور ملک اور اس کے حکمران بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔
’ٹی اے ایف ٹی کا معاملہ جتنا مسئلہ نظر آتا ہے اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے اور اس نے عمران خان کو ایک طرح سے پورا جھٹکا دیا ہوا ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے انھیں یہ مشورہ دیا ہوگا کہ آپ امریکہ سے رابطہ کریں اور مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں۔‘
گذشتہ دونوں جب امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے خان صاحب کے دورے سے لاعلمی کا اظہار کرکے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن میں کئی ادارےاور اعلیٰ سرکاری اہل کار اب بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال اور فعال کرنے کےحق میں نہیں کیونکہ وہ اسلام آباد کو ایک قابل اعتماد اتحادی نہیں سمجھتے۔
سعودی ثالثی
حسن عباس کا کہنا ہے کہ عمران خان سے ملاقات دراصل ٹرمپ کی اس ڈرامائی اندازِ سفارت کاری کا حصہ ہے جس کے تحت انھوں نے شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا تھا۔
’باور کیا جاتا ہے کہ یہ ملاقات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں ہو رہی ہے جب کہ ایک اور رائے یہ ہے کہ حکومت نے وائٹ ہاؤس کی ایک طاقتور سیاسی شخصیت سے رابطہ کرکے اس ملاقات کے لیے راستہ ہموار کیا۔‘
یوں اس ملاقات کو امریکہ اور پاکستان کے درمیان سرکاری روابط سے زیادہ دو ایسی شخصیات کی ملاقات کے طور پر لیا جاسکتا ہے، جن کی طرز زندگی، اندازِ سیاست اور مقبولیت کا پیمانہ ایک دوسرے سے بہت ملتا جُلتا ہے۔
پیش رفت
جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے پروفیسر اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق اہل کار ڈاکٹر ڈینئل مارکی کہتے ہیں ٹرمپ انتظامیہ کا عمران خان کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات پر راضی ہونا خود اس بات کی نشان دہی ہے کہ واشنگٹن سمجھتا ہے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف موئثر اقدامات اٹھائے ہیں جو بذات خود ایک اہم پیش رفت ہے۔
وہ کہتے ہیں فی الحال یہ سمجھنا کہ امریکہ پاکستان کو یہ اشارہ دے رہا ہے کہ افغانستان سے انخلا اور وہاں قیامِ امن کے بعد بھی امریکہ پاکستان کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات برقرار رکھے گا قبل از وقت ہوگا۔
’واشنگٹن میں اب بھی پاکستان کو افغانستان ہی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور یہاں پاکستان کے ساتھ مضبوط روابط کے خواہش مند افراد کا طبقہ محدود ہے۔‘
’واشنگٹن یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا پاکستان نے دہشت گردی کے قلع قمع کرنے کے لیے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کے بعد دہشت گرد پھر سے سر نا اٹھا سکیں؟ امریکہ میں اب بھی پاکستانی سر زمین سے مبینہ طور پر سرگرم عمل بھارت مخالف تنظیموں کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
حالیہ پاک ۔بھارت کشیدگی کے بعد لگتا ہے کہ بھارت مخالف گروپس پر دونوں ممالک کے درمیان بات ہوگی۔
مارکی نے کہا امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے بلوچ لبریشن آرمی کو حال ہی میں عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے سے امریکہ پاکستان کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے لیے کار آمد ہوسکتا ہے۔
واشنگٹن کے سیاسی مبصرین کے ایک اور گروہ کی نظریں عمران خان سے زیادہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہِ واشنگٹن پر مرکوز ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اب بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا سرچشمہ جمہوری حکومت نہیں بلکہ فوج ہے اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اصل اختیارات فوج کے پاس ہیں۔
اس سے پہلے سال 2015کو اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے دورہِ واشنگٹن کا چرچا اس وقت ماند پڑ گیا جب ایک ماہ بعد اُس وقت فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی واشنگٹن پہنچ گئے۔
خود مقامی میڈیا اور تھنک ٹھینکس نےبھی انھیں منتخب وزیر اعظم سے زیادہ اہمیت دی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار جنرل باجوہ بھی وزیر اعظم کے دورے سے سب کی توجہ ہٹا سکیں گے یا نہیں۔