ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) نے نیشنل کالج آف سائنسز (این سی ایس) کو شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں جن میں پشاور میں رواں ہفتے این سی ایس میں ایک خاتون ریپر کے غیر روایتی لباس میں گانے اور رقص کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔
اس شو کاز نوٹس پر متعلقہ ادارہ 24 اکتوبر 2022 کو اپنی وضاحت پیش کرے گا۔
وزیر ہائیر ایجوکیشن کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرجواب تسلی بخش نہ ہوا، تو متعلقہ ادارے کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا، ’فحاشی کے لیے چاہے کلچر یا کوئی بھی نام استعمال ہو، کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے ایس او پیز میں واضح لکھا گیا ہے کہ وہ کن اصولوں اور ضوابط کی پاسداری کرے گا۔‘
دوسری جانب، جمعیت طلبا اسلام جنہوں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے 24 اکتوبر 2022 کو احتجاج کرنے اور این سی ایس کے خلاف ریلی نکالنے کاارادہ ظاہر کیا تھا، نے آج متعلقہ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد اپنا پروگرام منسوخ کرلیا ہے۔
واقعے کی تفصیلات
این سی ایس کالج کے مالک نے کئی برس پہلے ادارہ مختلف خریداروں کو فروخت کر دیا، جس کے بعد کالج سسٹم ختم ہوا اور این سی ایس صرف ایک برانڈ کا نام رہ گیا۔
این سی ایس کی چھتری کے نیچے تین انسٹی ٹیوٹس نے جنم لیا، جن میں ’این سی ایس یونیورسٹی سسٹم ہیلتھ سائنسز، این سی ایس مینجمنٹ اینڈ ایجوکیشن سائنسز، اور این سی ایس سکول سسٹم‘ شامل ہیں۔
ان تینوں اداروں کے مالکان اور انتظامیہ الگ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے نسبتی ادارے بھی مختلف ہیں۔
حالیہ واقعہ این سی ایس یونیورسٹی سسٹم ہیلتھ سائنسز میں پیش آیا ہے، جو کہ پشاور کےعلاقے ابدرہ میں واقع ہے۔
تاہم، اس برانڈ کے ساتھ جڑے دوسرے انسٹی ٹیوٹ این سی ایس مینیجمنٹ اینڈ ایجوکیشن سائنسز کا کہنا ہے کہ متعلقہ واقعے سے ان کی ساکھ کو بھی ناحق نقصان پہنچا ہے اور اب انہیں بھی عوام اور خصوصاً حکومتی اداروں کو وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں۔
ادارے کی انتظامیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی ’وابستگی پشاور یونیورسٹی کے ساتھ ہے جب کہ زیر عتاب یونیورسٹی کی وابستگی خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ ہے۔ دونوں کا آپس میں کوئی بھی تعلق نہیں ہے، بلکہ دونوں کا نصاب بھی مختلف ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ دراصل خبر پھیلانے والے اور صارفین مسلسل صرف ’این سی ایس‘ لکھتے رہے۔
واقعے کی تفصیلات کے مطابق، 19 اکتوبر کو ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی، جس میں ایک نوجوان خاتون مغربی طرز کا لباس زیب تن کیے ہوئے امریکی ریپ گلوکارہ ’کارڈی بی‘ کا گانا ’بوڈاک یلو‘ گارہی تھی۔
ان خاتون کے بارے میں تاحال کسی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے تعلق رکھتی ہیں، تاہم کہا جا رہا ہے کہ وہ غیر ملکی ہیں۔
جب انڈپینڈنٹ اردو نے متاثرہ ادارے کے موجودہ کیمپس ڈائریکٹر ڈاکٹر شوکت علی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ دراصل ایک نجی کمپنی نے ’ہنر میلہ‘ کے نام سے یہ تقریب منعد کی تھی، جبکہ جگہ این سی ایس ہیلتھ سائنسز نے فراہم کی تھی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں ہنرمیلہ میں کسی گلوکارہ، رقاصہ یا موسیقی کے پروگرام کے بارے میں نہ تو تحریری اور نہ زبانی طور پر آگاہ کیا گیا تھا، بلکہ ان سے درخواست ہوئی تھی کہ پشاور کے ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے اور انہیں تعلیمی اور کاروباری مواقع فراہم کرنے کے لیے جگہ کی ضرورت تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ دستاویز میرے پاس بطور ثبوت موجود ہے۔ ہم نےبلا معاوضہ نیک نیتی سے جگہ فراہم کی، جس میں ہماری انتظامیہ اور طلبہ میں سے کوئی بھی شامل نہیں تھا، ویڈیو میں نظر آنے والے تمام نوجوان دیگر اداروں سے تشریف لائے تھے۔‘
ڈائریکٹر این سی ایس ہیلتھ سائنسز نے بتایا کہ انہوں نے ایونٹ آرگنائزر کمپنی کو شوکاز نوٹس بھیج دیا ہےاور اگر ان کا کوئی جواب نہ آیا تو وہ نہ صرف ان کے خلاف ایف آئی آر درج کریں گے بلکہ ان کے خلاف عدالت بھی جائیں گے۔
’ہمارے ساتھ دھوکہ کرکے ایونٹ آرگنائزر کمپنی نے ہمارے انسٹی ٹیوٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اب خود تو وہ چھپ گئے ہیں، موبائل فون تک بند ہیں، لیکن سب کے سامنے جواب دہ اب ہم ہیں۔‘
ڈائریکٹر شوکت علی نے کہا کہ آج 23 اکتوبر کو ان کی جمعیت طلبہ اسلام سے میٹنگ ہوئی، جس میں ان کو اصل حقائق سے آگاہ کردیا گیا، بلکہ ان کے جو جائز مطالبات تھے وہ بھی تسلیم کیے گئے۔
’ایک مطالبہ قانونی کارروائی کرنا اور دوسرا مستقبل میں ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کرنا تھا، جن کا این سی ایس انتظامیہ پہلے ارادہ ظاہر کر چکی تھی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے واقعے میں ملوث 313 ایونٹ آرگنائزر نامی کمپنی کا نمبر حاصل کرکے ان سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم متعلقہ نمبر مسلسل بند رہا۔