مردان میں ملنے والے’شنکر‘ کباب کی دکان 160 سال سے قائم ہے اور یہاں ماضی میں کباب چار آنے فی کلو ملتے تھے۔
مردان شہر کے نواحی علاقے شنکر میں مشہور کباب بنانے والے حاجی عمر خطاب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ کباب پہلے میرے داد بناتے تھے پھر میرے والد تیارکرتے تھے اور اب میں پچھلے 47 سال سے کباب تیار کررہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ لوگ شنکر کباب یا عمر خطاب چپلی کباب کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
عمر خطاب کے مطابق ’ہم ہفتے میں صرف پانچ دن کباب بناتے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے دو دن ناغہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں تازہ گوشت نہیں ملتا جس کی وجہ سے ہم دو دن کباب نہیں بنا سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ کباب کی تیاری میں وہ تازہ گوشت کے علاوہ پیاز، ٹماٹر، دھنیا، مرچ، زیرہ وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں۔
عمرا خطاب کہتے ہیں کہ وہ روزانہ بھینس ذبح کرتے ہیں اور ایک قصائی کے ساتھ اشتراک سے پنجاب سے بھینسیں لاتے ہیں اور یہاں پر ذبح کر کے اس کا گوشت کباب میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ ایسا گوشت بہترین رہتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال پر کہ روزانہ کتنا گوشت استعمال ہوتا ہے؟ کے جواب میں ان کا کہنات تھا کہ ’روزانہ جتنے لوگ آجاتے ہیں اورجتنے کباب تیار ہوتے ہیں وہ خریدار لے جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مہنگائی کی وجہ سے کباب کی قیمت بڑھ گئی ہے‘
’میرے دادا اور والد چارآنے فی کلو کباب فروخت کرتے تھے جبکہ اب سب چیزیں مہنگی ہونے کی وجہ سے قیمت 660 روپے فی کلو ہوگئی ہیں۔ اس سے پہلے 550 روپے فی کلو بیچتے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے کباب کھانے کے لیے لوگ باہر سے آتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا کوئی علاقہ نہیں ہے جس سے کوئی کباب کے لیے یہاں نہ آیا ہو، یہاں کے کباب باہرممالک بھی بھیجے جاتے ہیں، دبئی، سعودی عرب، انگلینڈ، کینیڈا سب جگہ بھیجتے ہیں۔‘
شنکر کباب کھانے کے لیے لوئر دیر کےعلاقہ تیمرگرہ سے آئے ہوئے شخص عمران خان نے بتایا کہ وہ خاص طور پر یہ کباب کھانے کے لیے یہاں آئے ہیں، ایک اور شخص منتظر خان نے کہا کہ وہ لوندخوڑ سے شنکر کباب کھانے کے لیےاپنے ساتھیوں کے ساتھ آئے ہیں۔
ان کے مطابق ’یہ کباب ایسے ہیں کہ اس کا ذائقہ آپ کو کھینچ کر یہاں لے آتا ہے۔‘