وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا برطانیہ سے زیادہ آزاد ہے اور اکثر بےقابو ہو جاتا ہے لیکن ان کی حکومت اسے کنٹرول کرے گی۔
واشنگٹن میں تھنک ٹینک ’ادارہ برائے امن‘ سے خطاب کے بعد سوال جواب کے سیشن میں پاکستان میں میڈیا میں سینسرشپ سے متعلق تاثر کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ برطانیہ میں بھی میڈیا نے ایسی خبریں شائع اور نشر نہیں کی ہوں گی جس طرح پاکستانی میڈیا نے کیں، جب سے میں اقتدار ہوں ایسا ہی دیکھا ہے۔ انہوں نے اپنی ذاتی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نہ انہیں اور نہ ان کی اہلیا کو علم ہوتا ہے لیکن پاکستان میڈیا میں کوئی ان کی طلاق کی خبر چلا دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ میڈیا ریگولیٹر یعنی پمرا کو مزید مضبوط کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دور میں صحافی غائب ہو جایا کرتے تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت کے دور میں صحافیوں پر تشدد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر چینل مالکان سے آپ کتنا ٹیکس دیا اس کی تفصیلات طلب کرتے ہیں تو وہ اسے بھی آذادی اظہار پر حملہ قرار دے دیتے ہیں لیکن اب صورتحال ایسی نہیں رہے گی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی بحران سے دوچار ہے جبکہ اس پر میڈیا آئی ایم ایف کا حوالہ دے کر روپے کی قدر میں کمی سے متعلق غلط خبریں چلارہا تھا۔ ان کا سوال تھا کہ ایسا کہاں ہوتا ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران بھی صحافیوں نے ان سے میڈیا پر قدغنوں کے بارے میں جب پوچھا تو انہوں نے اسے ایک مذاق قرار دیا۔
حالیہ دنوں میں چند ٹی وی چینلز کی بندش جیسے واقعات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
افغان طالبان سے ملاقات
گذشتہ روز وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیے جانے والے استقبال کو خوش کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ واپس لوٹ کر افغان طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کریں گے۔
اپنے دورہ امریکہ، خطے کی صورتحال، افغان امن عمل، پاکستان کے اندرونی معاملات اور اپنی حکومت کو درپیش مسائل سے متعلق کھل کر بات کی۔
عمران خان نے کہا کہ ’جب تحریک انصاف برسراقتدار آئی، اُس وقت بڑا چیلنج یہ تھا کہ سب مالیاتی ادارے خسارے میں تھے۔ کرپٹ سیاستدان ریاستی اداروں کو تباہ کرتے ہیں، اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو منی لانڈرنگ کے امکانات نہیں ہوں گے، کرپشن کی دولت تو واپس لی جاسکتی ہے لیکن تباہ شدہ اداروں کو دوبارہ کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں لڑرہا بلکہ ایک مافیا کے ساتھ لڑ رہا ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن کی وجہ سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں کیونکہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے بھوک، غربت اور افلاس کا گراف بڑھ رہا ہے اور لوگ اس کی وجہ سے مر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں امریکہ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے خدوخال کے بارے میں ناقص معلومات تھیں، میں نے ڈیموکریٹس کے اراکین سے ملاقات میں انہیں بتایا تھا کہ عسکری کارروائی کے ذریعے کابل سمیت دیگر شہروں میں امن نہیں لایا جاسکتا۔ عوام سمجھتے ہیں کہ ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم مشترکہ طور پر کام کریں تو افغان امن عمل کے مثبت نتائج سامنےآئیں گے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کا تعلق جمہوریت کے استحکام سے وابستہ ہے۔ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کریں گے، طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا: ’میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کے لیے آمادہ کروں گا۔‘
مسئلہ کشمیر
خطے کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات مشکل ترین مرحلے میں ہیں۔ جب بھی کوشش کی گئی کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے جب دونوں ممالک دوبارہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
قبل ازاں وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم انتہائی موثراور جامع ہے۔ ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں، بھارت ایٹمی ہتھیارترک کردے، ہم بھی استعمال نہیں کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں تنازعات کی اصل جڑ مسئلہ کشمیرہے۔ 72 سال سے تصفیہ طلب مسئلہ حل کیے بغیر امن ممکن نہیں۔ پاکستان پڑوس میں کسی اورتنازع کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
عمران خان نے کہا کہ ’ہمارے والدین نو آبادیاتی نظام کے دورمیں پیدا ہوئے تھے، میں آزاد پاکستان میں پیدا ہونے والی نسل سے ہوں۔ میرے والدین نے ہمیشہ یاد دہانی کروائی کی کہ نوآبادیاتی نظام میں رہنا کتنا مشکل تھا جہاں آپ ایک آزاد ملک میں نہیں رہتے تھے۔‘
’اقلیتوں کو پاکستان میں مکمل تحفظ حاصل ہے‘
اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’اقلیتوں کو پاکستان میں مکمل تحفظ حاصل ہے۔ سابقہ حکومت ایک مذہبی گروپ کے دباؤ کی وجہ سے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کا مقدمہ چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی، حکومت مذکورہ گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی تھی۔ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آیا تو اسی مذہبی گروپ نے ریاست کو دو دن تک یرغمال بنائے رکھا لیکن حکومت نے عدالتی فیصلے کا احترام اور اقلیتی خاتون کا استحقاق مجروح نہیں ہونے دیا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا۔‘ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت اقلیتوں کا یکساں شہری کی طرح خیال رکھے گی۔
انہوں نے پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت کی پالیسیوں میں اختلاف کے تاثر کو بھی مسترد کردیا۔