طالبان کا نیا حکم: ’نماز جمعہ میں امیر کی فتح کے لیے دعا لازمی‘

طالبان کی حج و اوقاف کی وزارت کے مطابق ملک کی مساجد کے تمام ائمہ اور مبلغین کے لیے ایک متفقہ خطبہ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

ایک طالبان عہدیدار 17 ستمبر 2021 کو کابل کی وزیر اکبر خان مسجد میں نماز جمعہ سے قبل ایک اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی/ ہوشنگ ہاشمی)

طالبان کی وزارت حج و اوقاف نے ملک کی تمام مساجد کے مبلغین کو حکم دیا ہے کہ وہ نماز جمعہ کے دوران ایک ہی خطبہ دیں اور اس گروپ کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کی ’فتح کے لیے دعا‘ کریں۔

وزارت نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ ’جمعہ کے خطبہ میں آداب اور مستحبات ہیں، جن میں سے ایک امیر اور حاکم وقت کے لیے نیک دعا، اس کی ثابت قدمی اور اپنے دشمنوں پر فتح ہے۔‘

طالبان کی وزارت حج و اوقاف نے مذہبی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’صحابہ کے دور میں سلطان اور حکمران کے لیے دعائیں کی جاتی تھیں اور افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے دور میں بھی اس کے لیے خطبات میں دعائیں ادا کی جاتی تھیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس کے علاوہ، خلافت عثمانیہ کے دوران خطبات میں عثمانی خلفہ کے لیے دعائیں مانگی جاتی تھیں۔‘

طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اپنی پہلی حکومت کے دوران انہوں نے نماز جمعہ کے خطبوں میں اس تحریک کے اس وقت کے رہنما اور بانی ملا محمد عمر کے لیے دعا کی تھی۔

طالبان کی حج و اوقاف کی وزارت کے مطابق ’وزارت ہدایات، حج و اوقاف نے ملک کی مساجد کے تمام ائمہ اور مبلغین کے لیے ایک متفقہ خطبہ کا اہتمام کیا ہے، جس میں خطبہ کے ستون، روایات اور آداب کو دیکھا گیا ہے اور اسے امارت اسلامیہ افغانستان کی اتھارٹی نے منظور کیا ہے۔‘

اس وزارت نے دلیل دی ہے کہ ایک ہی خطبہ اتحاد کی نمائندگی کرتا ہے۔

افغانستان کی پچھلی حکومت میں وزارت حج و اوقاف کے خلاف تنقید کی گئی تھی جو تمام مساجد اور دینی مدارس کا انتظام اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ کئی بار بعض مساجد اور دینی مدارس میں سابق حکومت کے خلاف جنگی فتوے جاری کیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق اپنے دورِ حکومت میں طالبان نے اب تک اپنے مخالفین کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے نماز جمعہ کے موقع پر بعض اماموں اور مساجد کے مبلغین کو منبر پر آنے سے منع کر دیا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔

طالبان نے گذشتہ ہفتے کابل میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے فقہ حنفی کی بنیاد پر بیک وقت آذان نشر کرنے کے لیے 400 لاؤڈ سپیکر نصب کیے ہیں۔ تاہم اس فیصلے کے بارے میں اہل تشیع کا ردعمل ابھی واضح نہیں ہے۔

افغان نیشنل ٹیلی ویژن نے جو کہ طالبان کے کنٹرول میں ہے خبر دی ہے کہ طالبان کابل شہر میں مساجد کی تعداد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

15 اگست 2021 کو طالبان نے اشرف غنی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران طالبان نے دینی مدارس قائم کرنے اور مساجد کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی ہے اور افغانستان کی یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیم کے اوقات بڑھا دیے ہیں۔

طالبان ’اسلامی شریعت‘ کے نفاذ کو اپنی حکومت کا بنیادی ہدف سمجھتے ہیں اور اس فریم ورک میں انہوں نے انفرادی اور سماجی آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، خاص طور پر خواتین کے لیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا