کراچی کے رہائشی اسلم (فرضی نام) ایک کرمنل کیس میں گرفتاری کے بعد سینٹرل جیل میں قید ہیں، لیکن جیل میں سب انہیں ’چینی ٹیچر‘ کے طور پر جانتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میں چین کی ووہان یونیورسٹی سے پڑھا ہوں اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں چائنیز زبان سکھاتا ہوں۔ ابھی جیل انتظامیہ کی طرف سے مجھے ایک اچھا موقع ملا ہے کہ میں یہاں قیدیوں کو چائنیز زبان سکھاؤں۔‘
پاکستانی نوجوانوں میں چینی زبان سیکھنے کے رجحان میں اس وقت اضافہ ہوا، جب 2015 میں اسلام آباد نے بیجنگ کی مالی معاونت سے چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کی بنیاد رکھی۔
اسی طرح کراچی یونیورسٹی میں بھی کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے نام سے چینی زبان سکھانے کا ایک شعبہ بیجنگ کی مالی مدد سے 2013 میں قائم کیا گیا۔
تاہم رواں برس 26 اپریل کو ایک خاتون خودکش بمبار نے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے گیٹ پر چینی اساتذہ کی گاڑی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ اور ان کے ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوگئے۔
چینی انسٹی ٹیوٹ پر حملے کے بعد بیجنگ نےکراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی یونیورسٹی میں چینی زبان سکھانے والے 11 اساتذہ کو واپس بلا لیا تھا۔
اس کے بعد سے گذشتہ چھ ماہ سے ان جامعات میں چینی زبان سیکھنے والے تقریباً 2500 طلبہ و طالبات کی تعلیم کا سلسلہ تاحال رکا ہوا ہے۔
دونوں جامعات کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ طلبہ و طالبات کے لیے چینی زبان کی آن لائن کلاسز شروع کروائی جائیں، تاہم ان جامعات میں تاحال اس منصوبے پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن کراچی سینٹرل جیل میں قید اسلم نے یہ سلسلہ گذشتہ چھ ماہ سے جاری رکھ ہوا ہے، جو ایک معمولی نوعیت کے کرمنل کیس میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار ہوئے۔
انہوں نے بتایا: ’میں یہاں قیدیوں کو چائنیز زبان سکھا رہا ہوں اور مجھے اس کا رسپانس بہت اچھا مل رہا ہے کہ قیدی بہت توجہ سے یہ زبان سیکھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’چائنیز سکھانے کا مقصد یہ ہے کہ روز بروز ہمارے چین کے ساتھ تعلقات اچھے ہوتے جائیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ زبان سیکھیں۔‘
بقول اسلم : ’روز بروز ہمارے طلبہ بڑھ رہے ہیں۔ ان کا رجحان بھی ہے چائنیز سیکھنے کا اور ان کا ارادہ ہے کہ یہاں سے نکلنے کے بعد اپنی زندگی کو اچھے طریقے سے گزارا جائے اور جو کچھ یہاں پر سیکھ رہے ہیں اسے باہر جاکر استعمال کیا جائے۔‘
’چینی اساتذہ کے مرنے پر افسوس ہے‘
انہوں نے بتایا: ’میں ںے کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ سے چائنیز زبان پڑھی ہے۔ مجھے بہت افسوس ہوا تھا جب مجھے پتہ چلا کہ کچھ چینی ٹیچرز دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، جنہوں نے مجھے بھی پڑھایا اور یہ بھی پتہ چلاکہ پاکستان میں جتنے بھی ٹیچرز تھے وہ واپس چین چلے گئے ہیں۔‘
اسلم محسوس کرتے ہیں کہ ایسے حالات میں پاکستانی اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔
’پہلے ہم نارمل طریقے سے چائنیز پڑھا رہے تھے، لیکن اب چینی ٹیچرز نہ ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں کو ہر جگہ خود کو دستیاب رکھنا ہے اور اچھے طریقے سے پڑھانا ہے پاکستانیوں کو۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بچوں کو زیادہ سے زیادہ چائنیز پڑھائیں اور اچھے طریقے سے پڑھائیں تاکہ وہ اچھے طریقے سے کام کرسکیں۔‘
نوٹ: شناخت ظاہر ہونے کے خدشے کی وجہ سے کراچی سینٹرل جیل میں چینی زبان پڑھانے والے قیدی کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے۔