پاکستانی فوج میں حالیہ دنوں میں نئی اعلیٰ تعیناتیوں کے بعد ریٹائر ہونے والے عسکری عہدیداروں کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
عمومی طور پر ریٹائرڈ آرمی چیفس اور سینیئر جنرلز ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی تقاریر یا بیانات نہیں دیتے اور نہ ہی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد کسی انٹرویو میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنی الوداعی تقریر میں کہا تھا کہ اب وہ ’گمنامی میں چلے جائیں گے لیکن روحانی طور پر فوج کے ساتھ رہیں گے۔‘
لیکن کیا یہ پابندی روایتی ہے اور اس پابندی کی کوئی قانونی حیثیت بھی موجود ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کو عسکری ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یہ آرمی ایکٹ کا حصہ تو نہیں لیکن فوجی قواعد و ضوابط کا حصہ ضرور ہیں، جن پر عمل درآمد لازم ہے اور عمل درآمد نہ کرنے پر تادیبی کارروائی عمل میں لائے جا سکتی ہے۔
ریٹائر ہونے والے دیگر آرمی چیفس کی طرح جنرل قمر جاوید پر بھی انٹرویوز اور تقاریر پر آئندہ دو سال تک پابندی ہوگی۔ اسی طرح بطور سینیئر جنرل فیض حمید پر بھی یہ پابندی لاگو ہو گی کہ وہ کوئی سیاسی تقریر یا انٹرویو نہیں دیں گے۔
دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ سخت آرڈر ہے اور فوج کے ڈسپلن کا حصہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے دو سال تک تقاریر، انٹرویوز یا سیاست میں حصہ نہیں لیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی اور اگر ڈسپلن کی خلاف ورزی کریں گے تو محکمانہ کارروائی ہو گی۔‘
اس سوال پر کہ اگر کوئی ریٹائر آفیسر قواعد کی خلاف ورزی کرے تو پھر محکمہ کیا کارروائی کرتا ہے؟ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ ’اس متعلقہ افسر کی پینشن روک لی جاتی ہے یا دیگر مراعات بند کر دی جاتی ہیں یا کم کر دی جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ کوئی ایسا اقدام نہیں جس سے کورٹ مارشل یا کوئی سزا دی جائے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دو سال پورے ہونے کے بعد آپ بولنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن دو سال کے بعد بھی اگر غیر ملکی میڈیا انٹرویو کے لیے رابطہ کرتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے پہلے مشورہ کر لیں۔‘
بقول جنرل (ر) امجد شعیب: ’یہ قانون یا قواعد ضابطے نہیں ہیں لیکن کسی بھی مستقبل کی پریشانی سے بچنے کے لیے مشورہ کر لینا بہتر ہے تاکہ اگر منہ سے کوئی بات نکل بھی جائے تو بعد میں کوئی دقت نہ ہو یا جوابدے نہ ہونا پڑے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بھارتی میڈیا نے سیاچن کے معاملے پر مجھ سے انٹرویو کرنے کی درخواست کی اور انٹرویو کے انتظامات دبئی میں کر رکھے تھے۔ میں نے اس انٹرویو کے لیے لکھ کر جی ایچ کیو سے اجازت طلب کی تھی کہ میں یہ انٹرویو دینا چاہتا ہوں۔
انہوں نے اجازت تو دے دی لیکن ساتھ ہی ریاست کا موقف بھی لکھ کر بھیجا کہ یہ پاکستان کا موقف ہے اور آپ نے پاکستان کے موقف کی ہی نمائندگی کرنی ہے۔‘
اس سوال پر کہ یہ پابندی صرف آرمی چیفس پر ہے یا تمام سینیئر ریٹائرڈ جنرلز پر؟ جنرل (ر) امجد شعیب نے بتایا کہ ’یہ پابندی صرف آرمی چیف کے لیے نہیں بلکہ تمام رینکس پر ہے۔ چاہے وہ کپتان کا رینک ہے میجر، کرنل، بریگیڈیئر یا لیفٹیننٹ جنرل کا رینک ہو، سب پر یہ لاگو ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’میں ریٹائرمنٹ کے دو سال تک ویسے ہی نہیں بولا تھا کیونکہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد تین سال تک فوجی فرٹیلائزر کا سربراہ تھا اور جب وہ ملازمت بھی ختم ہوئی تو پابندی کا وقت بھی پورا ہو چکا تھا۔‘
دو سال کی مدت پوری ہونے سے پہلے اگر متنازع ہونے کی صورت میں اپنی پوزیشن کی صفائی دینا ضروری ہو اور بیان جاری کرنا پڑے تو ایسی صورت میں کیا راستہ ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’ایسی صورت حال میں جنرل ہیڈکوارٹرز سے اس کی نہ صرف اجازت لینا ہوتی ہے بلکہ انٹرویو یا تقریر کا مواد بھی کلیئر کروانا ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’سب سے بہتر راستہ یہ ہوتا ہے کہ کسی دوست کے ذریعے خبر شائع ہو جائے جو یہ دعویٰ کرے کہ میں ان سے ملا تھا اور جو بات پھیلائی جا رہی ہے، وہ ویسے نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جیسے جنرل باجوہ کے اثاثہ جات پر خبریں سامنے آنے پر ایک سینیئر صحافی نے جنرل باجوہ کی حمایت میں یوٹیوب پروگرام کیا اور کہا کہ جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع سے بات ہوئی ہے، جنہوں نے بتایا کہ جنرل باجوہ پر پورے کیریئر میں ایک دھیلے کی بھی کرپشن کا الزام نہیں ہے اور ان کے تمام اثاثہ جات ڈکلیئرڈ ہیں۔‘
جب جنرل (ر) امجد شعیب سے سوال کیا گیا کہ ریٹائرمنٹ کے کتنے عرصے بعد کوئی سیاست میں باضابطہ شمولیت اختیار کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا: ’دو سال بعد ریٹائرڈ فوجی افسر کو اجازت ہے کہ وہ سیاست میں حصہ لے سکتا ہے لیکن دو سال سے پہلے اگر سیاست میں شمولیت اختیار کرنا ضروری ہو تو جی ایچ کیو سے تحریری اجازت نامہ لے کر این او سی حاصل کرنا ہو گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جیسے جنرل (ر) راحیل شریف جب ریٹائرمنٹ کے فوری بعد سعودی عرب نئی نوکری پر چلے گئے تو اس سے پہلے ان کو جی ایچ کیو سے این او سی کلیئرنس حاصل کرنا پڑی تھی، جس کے بعد وزارت دفاع نے اس کلیئرنس کی بنیاد پر این او سی جاری کیا تھا۔‘
میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’قواعد کے مطابق دو سال تک سیاسی تقاریر یا انٹرویوز کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ اجازت جی ایچ کیو سے اس صورت میں ہو سکتی ہے اگر ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد کوئی حکومتی عہدے پر موجود ہے، جیسے پرویز مشرف جب آرمی چیف کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے لیکن اس وقت وہ صدر پاکستان بھی تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون نہیں ہے لیکن اصول یہی ہے۔ میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ اگر کوئی آرمی چیف رہا ہے یا ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر رہا ہو تو اسے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد انٹرویوز دینے میں محتاط ہونا چاہیے۔‘
اب تک ریٹائر ہونے والے سینیئر فوجی افسران کے مستقبل کے بارے میں صورت حال واضح نہیں کہ وہ کیا ارادے رکھتے ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم ملازمت چھوڑنے کے دو سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا ہے۔