نور مقدم قتل کیس میں بری ہونے والے نامزد ملزمان کے خلاف نور مقدم کے والد نے بھی اپیل دائر کر رکھی ہے جس میں انہوں نے استدعا کی ہے کہ ان افراد کو بھی سزا دی جائے اور ظاہر جعفر کی سزائے موت کے فیصلے پر جلد عمل کیا جائے۔
شوکت مقدم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نچلی عدالت میں ہمارے ساتھ فیئر ٹرائل ہوا ہے، اب ہائی کورٹ سے بھی یہی امید ہے کہ مجرمان کو ریلیف نہیں دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ ظاہر جعفر کی دماغی حالت ٹھیک نہیں یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ جیل میں کوئی بھی رہے گا تو نارمل ایکٹ نہیں کرے گا لیکن اس بات کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا کہ وقوعے کے وقت تندرست ذہنی حالت میں نہیں تھے۔ مجرم اس بات کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعرات کو چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس اعجاز اسحاق خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’معذرت کے ساتھ یہاں پوسٹ مارٹم کرنے والے نا اہل اور کرپٹ ہیں۔ پولیس نے اس کیس میں بنیادی نکات کو کیسے نظر انداز کر دیا؟‘
انہوں نے کہا کہ ’اس لیے ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ نااہلی کی انتہا ہے۔‘
مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ظاہر جعفر کی جانب سے میڈیکل کرانے کی ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی آر پڑھنا چاہ رہا ہوں جس میں پراسیکیوشن کے بیانات میں تضاد ہے۔ جرح میں شوکت مقدم نے پہلی دفعہ بتایا کہ انہیں واٹس ایپ کال آئی تھی۔‘
اس پر عدالت نے کہا کہ ’اگر مان بھی لیا جائے مدعی نے کہیں غلط بیانی کی تو پھر بھی اس کا اثر کیا ہو گا وہ بتائیں؟‘
ظاہر جعفر کے وکیل نے کہا کہ اس کیس کی بنیاد جو تھی وہ یہی تھی جو مجرم اور مدعی کے درمیان کال کا رابطہ بنایا گیا۔ سی ڈی آر میں نور مقدم کی کالز ان کی والدہ کے ساتھ ہیں، والد کے ساتھ نہیں ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کمپلیننٹ اور ظاہر جعفر کا موبائل فون قبضے میں لیا گیا تھا؟
اس پر شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ ’مدعی کا نہیں لیکن ظاہر جعفر کا موبائل فون قبضے میں لیا گیا تھا۔‘
عدالت نے مدعی کے وکیل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ 19 جولائی کو نور مقدم کی اپنے والد کے ساتھ کال ہے یا نہیں یہ آپ نے بتانا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظاہر جعفر کے وکیل نے کہا کہ 18 جولائی نہیں بلکہ مدعی شوکت مقدم 19 جولائی کو نور مقدم کے لاپتہ ہونے کا بتا رہے ہیں۔
’سی ڈی آر کے مطابق بچی لاہور نہیں اسلام آباد میں تھی۔ مدعی نے بتایا کہ نور مقدم نے لاہور جانے کا کہا تھا۔‘
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے بچی نے باپ کو غلط بتایا ہو۔
وکیل عثمان کھوسہ نے کہا کہ ’انیس جولائی کی صبح 3:50 پر ظاہر جعفر کی امریکہ کی فلائیٹ تھی۔ سامان کے ساتھ ٹیکسی میں گئے اور ایک منٹ بعد ہی واپس آ گئے۔ یہ گھر سے نکلے اور پھر واپس آ گئے، لڑکی نے انہیں کہا ہو گا کہ باہر نہ جاؤ اور میرے لیے رک جاؤ۔‘
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات تو آپ اپنے پاس سے اخذ کر رہے ہیں کہ یہ کہا گیا ہو گا۔ آپ ٹیکسی میں جانے اور ایک منٹ بعد ہی واپس آنے سے کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘
وکیل عثمان کھوسہ نے کہا کہ ’میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ ظاہر جعفر کا قتل کرنے کا کوئی ارادہ یا محرک نہیں تھا۔‘
جسٹس عامر فاروق نے ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی منصوبہ بندی کے بغیر کسی کو قتل نہیں کیا جا سکتا؟
وکیل نے کہا کہ ’لڑکی نے نیول اینکریج سے ایف سیون پہنچنے تک ظاہر جعفر کو چھ کالز کیں، جو اس نے اٹینڈ نہیں کیں۔ پہلی کال نیول اینکریج، باقی کالز راستے سے اور آخری کال ظاہر جعفر کے گھر کے باہر سے کی گئی۔‘
’ظاہر جعفر کو 9:20 پر پکڑ کر باندھا گیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اس وقت گرفتار ہو چکا تھا جبکہ ایف آئی آر میں وقوعے کا وقت دس بجے بتایا جا رہا ہے۔‘
اس موقع پر مدعی کے وکیل شاہ خاور نے جواب دیا کہ وہ تھراپی ورکس کے ملازمین نے پکڑا تھا، پولیس والوں نے گرفتار نہیں کیا تھا۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پولیس والوں کا کیا موقف ہے کہ وہ کس وقت وہاں پہنچے تھے؟ ظاہر جعفر کے وکیل نے جواب دیا کہ پولیس نے بتایا کہ وہ ساڑھے نو بجے موقع پر پہنچے تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایا کہ پھر وقوعہ دس بجے کا کیسے ہو سکتا ہے، وہ اطلاع ملنے پر ہی وہاں پہنچیں ہوں گے۔
عدالت نے مجرم کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت چھ دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔