چین میں کچھ عرصے سے ملک بھر میں رائج زیرو کرونا پالیسی کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ چینی ان پابندیوں سے تھک چکے ہیں، اپنے لیے نارمل زندگی چاہتے ہیں۔
ان کے احتجاج میں تیزی چینی صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی کی ایک عمارت میں لگنے والی آگے کے نتیجے میں ہونے والی دس اموات کے بعد آئی ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کرونا کے روک تھام کے لیے اتنی سخت پابندیاں نہ لگی ہوتیں تو لوگ اس عمارت سے بر وقت باہر نکل سکتے تھے، یا امدادی کارروائی کرنے والے ادارے ان کی جان بچا سکتے تھے۔
ہم سنہ 2019 میں بیجنگ ائیرپورٹ ڈھیروں ارمان لے کر پہنچے تھے۔ چار ماہ میں کرونا آ گیا۔ ہم اور ہمارے ارمان بیجنگ کے ایک ہاسٹل میں بند ہو کر رہ گئے۔
ابتدا میں یونیورسٹی نے طالب علموں کا کیمپس سے باہر نکلنا منع کر دیا تھا۔ کچھ ماہ بعد ہمیں باہر آنے جانے کی اجازت ملی لیکن روزانہ حاضری لگوانا اور درجہ حرارت چیک کروانا لازمی تھا۔
رات دس بجے ہاسٹل بند ہو جاتا تھا۔ اس سے پہلے ہر صورت واپس آنا پڑتا تھا۔ شہر سے باہر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ یونیورسٹی کی طرف سے خاص ہدایات تھیں کہ اس صورت میں آپ یونیورسٹی میں واپس داخل نہیں ہو سکتے۔ بہت سے طالب علم ان سختیوں سے گھبرا کر ہاسٹل ہی چھوڑ گئے تھے۔
کچھ ماہ بعد انہیں واپس آنا پڑا۔ اول، باہر رہنا مہنگا تھا۔ دوم، اس وقت غیر ملکیوں کے لیے رہائش لینا بھی آسان نہیں تھا۔ کرونا سے خوف زدہ چینی غیر ملکیوں کو کرائے دار بنانے سے ہچکچا رہے تھے۔
پھر جن پابندیوں سے گھبرا کر طالب علم ہاسٹل چھوڑتے تھے وہی پابندیاں انہیں باہر بھی کسی نہ کسی صورت میں مل جاتی تھیں۔ سو سب مایوس ہو کر واپس آ جاتے تھے۔
دنیا نے کرونا وائرس کے ساتھ رہنا سیکھ لیا لیکن چین اپنی زیرو کرونا پالیسی پر کاربند رہا۔ اس پالیسی کی وجہ سے چینی عوام کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔
لوگوں کو ان کے دفاتر کی طرف سے چین چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں میں رہنے والے کئی چینیوں کو اپنے آبائی شہروں یا دیہاتوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دفعہ ہمارا ملنا بیجنگ کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر سے ہوا۔ وہ پچھلے تین سالوں میں اپنے گھر نہیں گئے تھے۔
اس وقت ان کا روزانہ دو دفعہ کرونا ٹیسٹ ہوتا تھا اور انہیں دن میں تین دفعہ ایک موبائل فون ایپلیکیشن میں اپنے درجہ حرارت کا اندراج کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اندراج نہ کرنے کی صورت میں انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔
چار ماہ پہلے جب میں نے چین سے جانے کا ارادہ کیا۔ اس وقت بیجنگ کے رہائشیوں کا ہر تیسرے دن کرونا ٹیسٹ کیا جا رہا تھا۔ ٹیسٹ نہ کروانے کی صورت میں کسی بھی عوامی سہولت کا استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک دن یونیورسٹی میں کرونا ٹیسٹ کرواتے ہوئے ایک درخت پر ایک نوٹس لگا ہوا دیکھا۔ فوراً موبائل فون نکال کر اس نوٹس کا چینی سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔
وہ نوٹس یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی والدہ کی طرف سے تھا۔ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یونیورسٹی سے باہر نہیں جا سکتی تھیں۔ گھر کے حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے۔ وہ نوکری کی تلاش میں تھیں۔
انہوں نے اپنے نوٹس میں لکھا تھا کہ وہ گھر کی صفائی کر سکتی ہیں، کھانا بنا سکتی ہیں اور چھوٹے بچوں کا دھیان رکھ سکتی ہیں۔
پتہ نہیں انہیں کوئی کام ملا یا نہیں۔ یونیورسٹی نے کچھ ہفتوں میں لوگوں کو کیمپس سے باہر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ انہیں کام نہیں بھی ملا ہو گا تو وہ واپس اپنی نوکری پر آ گئی ہوں گی۔
چین میں کرونا لاک ڈاؤن کا عالم یہ تھا کہ حکومت کسی بھی وقت کسی بھی علاقے کو لاک ڈاؤن میں ڈال سکتی تھی۔ اگر کوئی شخص اس وقت اس علاقے میں موجود ہوتا تو وہ وہیں مقید ہو جاتا تھا۔ جیسے آپ کسی کے گھر موجود ہوں، وہاں لاک ڈاؤن لگ جائے تو آپ لاک ڈاؤن کھلنے تک وہیں رہیں گے۔
کچھ لوگوں کے لیے وہ لاک ڈاؤن ان کے زندگی کے ساتھی سے ملانے کا باعث بنا۔ چینی میڈیا نے ایسے بہت سے واقعات رپورٹ کیے تھے۔
لیکن اب چینیوں کی بس ہو چکی ہے۔
چینی حکومت کی طرف سے عائد سخت سنسر شپ کی وجہ سے چینیوں کو دنیا کی خبریں نہیں مل پاتیں۔ تاہم قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ انہیں بتا رہا ہے کہ دنیا کب کی آگے بڑھ چکی ہے۔ وہ بھی اپنے لیے نارمل حالات چاہتے ہیں۔
چینی حکومت نے اپنی پابندیوں میں کچھ نرمی تو دکھائی ہے لیکن عمومی حالات ابھی بھی پہلے جیسے ہی ہیں۔ بیجنگ میں بسوں اور سب وے میں بغیر ہیلتھ کوڈ دکھائے سفر کرنے کی اجازت مل چکی ہے لیکن عمارتوں میں داخلے کے لیے ہیلتھ کوڈ دکھانا لازمی ہے۔
چین کو عوامی احتجاج پسند نہیں۔ احتجاج کرنے والوں کے خلاف پولیس کام کر رہی ہے۔ چینی پھر بھی ہاتھ میں سفید کاغذ پکڑ کر احتجاج کر رہے ہیں۔ انہیں اپنی پہلے والی زندگی واپس چاہیے جس میں وہ آزادی سے کہیں بھی جا سکتے تھے۔ کاروبار کر سکتے تھے اور پیسے کما سکتے تھے۔
دیکھیں چینیوں کو ان کی نارمل زندگی کب واپس ملتی ہے۔