جرمن پولیس نے حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش کے الزام میں ایک خود ساختہ شہزادے، ریٹائرڈ فوجی اور ایک سابق جج سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
تاہم امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ واضح نہیں ہوا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کا یہ مبینہ منصوبہ کتنا ٹھوس تھا۔
جرمنی دائیں بازو کے گروپوں کے کسی بھی خطرے کو سنجیدگی سے لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سازش کا پتہ چلنے کے بعد ہزاروں پولیس اہلکاروں نے ملک کے بیشتر حصوں میں بدھ کی شب چھاپے مارے۔
حکومت کے ترجمان سٹیفن ہیبسٹریٹ نے کہا: ’اپنی معلومات کے مطابق ہم ایک ایسے گروہ کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس نے ہماری جمہوری ریاست کو ختم کرنے اور مسلح حملے کا منصوبہ تیار کیا۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس کی قیادت میں انتہائی دائیں بازو کے ’دہشت گرد گروپ‘ کے ارکان کے خلاف چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے جنہوں نے مبینہ طور پر پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
چیف فیڈرل پراسیکیوٹر پیٹر فرینک نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اس گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کا چارج سنبھالنے کے لیے ایک ’کونسل‘ کا قیام کر لیا تھا اور ساتھ ہی عسکری تنظیم بھی، جس نے ایک نئی جرمن فوج تیار کرنا تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرینک نے کہا کہ اس ’دہشت گرد تنظیم کے کچھ ارکان نے جرمن پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے طاقت کے استعمال پر بھی غور کیا۔‘
بعد میں انہوں نے اے آر ڈی براڈکاسٹر کو بتایا کہ گروپ کی تیاریاں ’پہلے ہی ایک اہم مرحلے میں تھیں حالانکہ بغاوت کی کوئی حتمی تاریخ طے نہیں کی گئی تھی۔‘
اے ایف پی کے مطابق تقریباً تین ہزار سکیورٹی افسران، جن میں ایلیٹ اینٹی ٹیرر یونٹس بھی شامل تھے، نے چھاپوں میں حصہ لیا اور 130 سے زائد املاک کی تلاشی لی۔ جرمن میڈیا نے اسے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے خلاف ملک کی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی پولیس کارروائیوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
وفاقی استغاثہ نے کہا کہ اس گروپ پر الزام ہے کہ وہ ’سازشی نظریات‘ پر یقین رکھتا ہے، جس میں نام نہاد ’رائخ شہری تحریک‘ (ریچس بورگیو) کے بیانیے کے ساتھ ساتھ امریکہ کا سیاسی ’کیو اے نان‘ سازشی نظریہ بھی شامل ہے۔
تاہم حکومت کی اتحادی گرین پارٹی کی قانون ساز سارہ نینی کا ماننا ہے کہ یہ گروپ بغاوت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
نینی نے سوشل میڈیا پر جاری ایک پوسٹ میں کہا: ’مزید تفصیلات سامنے آ رہی ہیں جو اس بارے میں شکوک پیدا کرتی ہیں کہ آیا یہ لوگ اتنے ہوشیار تھے کہ اس طرح کی بغاوت کی منصوبہ بندی اور اسے انجام دے سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان کے خیالات کتنے ہی غیر پختہ ہوں اور ان کے منصوبے کتنے ہی نا امیدی پر مبنی ہوں لیکن یہ کوشش بھی خطرناک ہے۔‘