امریکی صدر جو بائیڈن واشنگٹن میں امریکہ افریقہ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہے ہیں جس کا مقصد بظاہر افریقہ میں چین اور روس کے بڑھتے اثرونفوز کے مقابلے میں امریکی کردار میں اضافہ کرنا ہے۔
منگل کو ہونے والے اس دوسرے امریکہ افریقہ سربراہی اجلاس کی بنیاد سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور صدرات میں رکھی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2014 میں جب براک اوباما نے افریقی رہنماؤں کا واشنگٹن میں خیرمقدم کیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اس سربراہی اجلاس کو تاریخی قرار دیا تھا، جس کی ایک وجہ سابق امریکی صدر کاپس منظر تھا جبکہ دوسری وجہ سے امریکہ اور افریقی ممالک کے درمیان شراکت داری اور تعلقات کو مزید بڑھانا تھا۔
تاہم اس نوعیت کا دوسرا اجلاس منعقد کرنے میں امریکہ کو آٹھ سال کا وقت لگا۔
2014 کے بعد سے چین، جسے واشنگٹن اپنے طویل المدتی چیلنجر کے طور پر دیکھتا ہے، نے امریکہ کو افریقہ میں سب سے بڑے سرمایہ کار کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے اور روس نے تیزی سے اپنے قدم جما رہا ہے۔ وہ اپنے کرائے کے فوجی مختلف تنازعات کے مقامات پر بھیج چکا ہے اور یوکرین جنگ کے معاملے پر مغربی دباؤ کو عوامی رائے سے جیتنے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدر بائیڈن کی میزبانی میں اس تین روزہ سربراہی اجلاس میں افریقہ میں نئی امریکی سرمایہ کاری کے اعلانات کیے جائیں گے اور غذائی تحفظ کی رسد کی اہمیت اجاگر کیا جائے گا، جو یوکرین پر حملے سے متاثر ہوا ہے۔
لیکن چین کے برعکس اس میں جمہوریت اور اچھی حکمرانی جیسی اقدار کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ لیکن آمنے سامنے سفارت کاری کے اس موقعے پر صدر بائیڈن یہ پیغام بھی دیں گے کہ ’امریکہ پروا کرتا ہے۔‘
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے افریقہ میں اپنی عدم دلچسپی کو کبھی راز نہیں رکھا، کے برعکس صدر بائیڈن نے سلامتی کونسل میں افریقہ کی نشست کی حمایت کی ہے اور ایک مشیر کے مطابق امریکی صدر افریقی یونین کو بڑی معیشتوں کے جی ٹوئنٹی گروپ میں شمولیت کی دعوت دیں گے۔
بائیڈن کے اعلی مشیر برائے افریق، جڈ ڈیورمونٹ کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک فیصلہ کن دہائی ہے۔ دنیا کو جس طریقے سے ترتیب دیا جائے گا اس کا تعین آنے والے برسوں میں کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن اور وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن ’اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اس گفتگو میں افریقی آوازیں اہم ہوں گی۔‘
افریقی رہنما پہلے ہی چین کے ساتھ ہر تین سال بعد سربراہی اجلاس منعقد کر رہے ہیں اور کئی امریکی اتحادیوں فرانس، برطانیہ، جاپان اور یورپی یونین کے ساتھ باقاعدہ ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ اس اجلاس کے لیے افریقی یونین کے تمام اراکین کو مدعو کر رہا ہے تاہم ان میں برکینا فاسو، گنی، مالی اور سوڈان شامل نہیں ہیں۔ جبکہ مدعو ممالک کی فہرست میں اریٹیریا کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔
اس اجلاس میں سب نظریں جن پر جمی ہوں گی وہ ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد ہوں گے، جو ایک وقت میں امریکی اتحادی تھے تاہم ان پر بائیڈن انتظامیہ نے تیگرے تنازعے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی زیادتیوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے۔
واشنگٹن میں روانڈا اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے صدر بھی ہوں گے کیونکہ بلنکن اپنے پڑوسی ملک میں پیش قدمی تے باغیوں کی مبینہ حمایت پر روانڈا پر بین الاقوامی دباؤ کی قیادت کر رہے ہیں۔
سربراہی اجلاس میں آنے والے دیگر صدور میں مصر کے عبدالفتح السیسی اور تیونس کے قیس سعید شامل ہیں، جنھیں جمہوری حقوق پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور استوائی گنی کے تیوڈورو اوبیانگ نگوما مباسوگو بھی موجود ہوں گے جن کے انتخاب کو امریکہ ایک دھوکہ قرار دے چکا ہے۔
اس اجلاس میں امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے زمبابوے کے وزیر خارجہ کی بھی شرکت متوقع ہے۔
افریقہ کے لیے امریکی محکہ خارجہ کے اعلی عہدیدار مولی فی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کچھ تنقید کی ہے، میرے خیال میں یہ کہنا مناسب ہے، کچھ لوگوں کی طرف سے جو یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اس حکومت یا اس حکومت کو کیوں مدعو کیا جس کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ صدر بائیڈن اور سکریٹری بلنکن کی جانب سے اختلافات پر پائے جانے والے احترام کا عکاس ہے۔‘
مولی فی کے مطابق انہیں اس اجلاس میں ایک ’مضبوط بحث‘ کی توقع ہے۔
سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں افریقہ پروگرام کے ڈائریکٹر میومبا فیزو ڈیزولی کا کہنا ہے کہ 2014 سے طویل انتظار کی وجہ سے امریکہ افریقیوں کے ’اعتماد کے خسارے‘ کے ساتھ سربراہی اجلاس میں داخل ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’سربراہی اجلاس بہت اچھے مواقع پیش کرتا ہے لیکن اس سے کچھ خطرات بھی پیدا ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ افریقہ کو دکھانے کا ایک موقع ہے کہ امریکہ واقعی ان کی بات سننا چاہتا ہے۔ لیکن اب جب کہ ہمیں بہت زیادہ توقعات ہیں، سوال یہ ہوگا کہ اب پہلے سے مختلف کیا ہو گا؟‘