انڈیا کے وزیر دفاع نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے گذشتہ ہفتے متنازع ہمالیائی سرحد پر ’یکطرفہ طور پر سٹیٹس کو کو تبدیل کرنے‘ کی کوشش کی ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے انڈیا کے راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’نو دسمبر 2022 کو چین کی پیپل لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے فوجیوں نے اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر سٹیٹس کو کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی، جس کو ہماری فوج نے روکا۔‘
انڈین وزیر دفاع نے کہا کہ دونوں طرف کے فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ انڈین فوج نے چینی فوجیوں کو واپس ان کی پوسٹ پر جانے پر مجبور کیا۔
راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ اس ہاتھا پائی میں دونوں جانب فوجیوں کو کچھ چوٹیں آئی ہیں۔ ہمارا کوئی بھی فوجی نہیں مرا اور نہ ہی کوئی شدید زخمی ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈین ملٹری کمانڈرز کی بروقت مداخلت کے باعث، پی ایل اے سولجرز اپنی لوکیشنز پر واپس چلے گئے۔
وزیر دفاع نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ انڈیا کے لوکل کمانڈر نے اس واقعے کے متعلق11 دسمبر 2022 کو اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ ایک فلیگ میٹنگ بھی کی اور اس حادثے پر بات چیت کی۔ انڈین کمانڈر نے چینی ہم منصب کو اس طرح کے ایکشن سے منع کیا اور سرحد پر امن قائم رکھنے کا کہا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چین نے کہا کہ سرحد پر صورتحال اب پرسکون ہے اور اس نے انڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ ’سرحدی علاقے میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کرے۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ 2020 کے بعد سے جوہری ہتھیاروں سے لیس ان ایشیائی ممالک کی متنازع سرحد پر سب سے زیادہ سنگین واقعہ ہے۔ اس وقت 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔
اروناچل پردیش کے کنٹرول کے لیے چین اور انڈیا کے درمیان1962 میں جنگ بھی ہوچکی ہے۔ چین اس کو تبت کا حصہ سمجھتا ہوئے اس پر دعویٰ کرتا ہے۔
اس سے قبل چین نے منگل کو کہا ہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر انڈین فورسز کے ساتھ ہونے والی حالیہ جھڑپ کے بعد صورت حال ’قابو‘ میں ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے منگل کو کہا: ’جہاں تک ہم سمجھتے ہیں، انڈیا چین سرحدی صورت حال مجموعی طور پر قابو میں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں فریقوں نے ’سفارتی اور فوجی ذرائع سے سرحدی معاملے پر بلا روک ٹوک بات چیت کو برقرار رکھا ہے۔‘
چین کی جانب سے یہ ردعمل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پیر کو انڈین فوج نے کہا تھا کہ ریاست ارونا چل پردیش کے توانگ سیکٹر میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر انڈین اور چین کی سکیورٹی فورسز کے مابین نو دسمبر کو ہونے والی مختصر جھڑپ کے نتیجے میں دونوں اطراف کے سات سپاہی زخمی ہوئے تھے۔
مزید کہا گیا تھا کہ بعدازاں دونوں ملکوں کی افواج فوری طور پر علاقے سے پیچھے ہٹ گئی تھیں۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق جمعہ (نو دسمبر) کو رات تین بجے پیش آنے والے اس واقعے میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے ایل اے سی کو مبینہ طور پر عبور کیا، جس کا انڈین فوجیوں نے ’مضبوط اور پرعزم انداز میں‘ مقابلہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق دونوں اطراف کے سپاہیوں کو جھڑپ کے دوران زخم آئے اور ذرائع کے مطابق کم از کم چھ انڈین فوجیوں کو گوہاٹی ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین ایکسپریس کے مطابق انڈین فوج کی جانب سے جاری کیے گئے مختصر بیان میں کہا گیا تھا کہ ’واقعے کے بعد انڈین کمانڈر نے اپنے ہم منصب کے ساتھ فلیگ میٹنگ کی، جس میں طے شدہ میکانزم کے تحت امن کی بحالی پر گفتگو کی گئی۔‘
جون 2020 میں مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں جھڑپوں کے بعد انڈیا اور چینی فوجیوں کے درمیان طویل عرصے میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس طرح کی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
وادی گلوان میں ہونے والی جھڑپ میں 20 انڈین فوجی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ چین نے اپنے کچھ فوجیوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب چین نے اتراکھنڈ کی پہاڑیوں میں اولی کے مقام پر انڈیا اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں ’یودھابھیاس آپریشن‘ پر اعتراض کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ 1993 اور 1996 کے سرحدی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ اور انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان گذشتہ ماہ ملائیشیا کے جزیرے بالی میں ہونے والے جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر ملاقات بھی ہوئی تھی، تاہم اس دوران کسی اہم موضوع پر بات چیت نہیں ہوئی۔