اسلام آباد کی مقامی عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں نو جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
جمعرات کو اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال محفوظ نے فیصلہ سنایا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی 22 نومبر کو شروع ہوئی تھی، جس میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر عدالت میں بیان بھی ریکارڈ کرا چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ دینے کے بعد فوجداری کاروائی کے لیے معاملہ اسلام آباد کی مقامی عدالت (سیشن کورٹ) کو بھیجا تھا۔
فوجداری کارروائی پر فیصلہ کب محفوظ ہوا تھا؟
پیر کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کی فوجداری قانون کے تحت کارروائی سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے عدالت کے سامنے میں موقف اپنایا تھا کہ کیس گھڑی کے بارے میں نہیں، بلکہ جواب دہندہ کی جانب سے جمع کروائے گئے اثاثہ جات سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے تین سال کے دوران توشہ خانہ سے 58 تحائف حاصل کیے جن کی مجموعی مالیت مالیت 14 کروڑ 20 لاکھ روپے ہے۔
سعد حسن نے اپنے دلائل میں مزید کہا تھا: ’پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو اپنے تمام اثاثے الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر کرنا چاہیے تھے، عمران خان نے توشہ خانہ سے جیولری بھی لی تھی لیکن ظاہر نہیں کی۔‘
وکیل کا کہنا تھا: ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی تحفہ یا آئٹم توشہ خانہ سے ملکیت بنایا جائے اور ظاہر نہ کیا جائے۔‘
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب دلائل سننے کے بعد عمران خان کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کیا ہے؟
عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے عدالت کو شکایت منظور کرتے ہوئے اُن (عمران خان) کے خلاف کرپٹ پریکٹس کا ٹرائل کرنے اور انہیں کو سیکشن 167 اور 173 کے تحت سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
مذکورہ دو دفعات کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں تین سال جیل اور جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔
توشہ خانہ نااہلی ریفرنس فیصلہ کیا تھا؟
الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بینچ نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ نااہلی ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا، جس میں کہا گیا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے جان بوجھ کر الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے غیر واضح بیان جمع کروایا، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن137 (اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کروانا)، سیکشن167 (کرپٹ پریکٹس) اور سیکشن 173 (جھوٹا بیان اور ڈیکلیریشن جمع کروانا) کی خلاف ورزی کی ہے، اور یوں وہ الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی سفارش کی تھی۔
توشہ خانہ ریفرنس کس نے دائر کیا تھا؟
رواں برس چار اگست کو پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما محسن نواز رانجھا نے حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قانونی ماہرین کے دستخطوں کے ساتھ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ تخائف کی تفصیلات شیئر نہ کرنے پر سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین پاکستان کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں سرکاری تخائف کو بیرون ملک بیچنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا، جبکہ تمام دستاویزی ثبوت بھی ریفرنس کے ہمراہ جمع کرائے گئے تھے۔