پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے انہوں نے نجی نیوز چینل جیو، اینکر شاہزیب خانزادہ اور کاروباری شخصیت عمر فاروق ظہور کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
ہفتے کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں عمران خان نے لکھا کہ متحدہ عرب امارات میں ان کے وکیل حسن شاد نے یہ کیس فائل کیا۔
My UAE lawyers led by Hassan Shad have now filed criminal defamation (libel and slander) proceedings under UAE law against Geo TV, Shahzeb Khanzada and fraudster Umer Farooq Zahoor.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 17, 2022
عمران خان کی اس ٹویٹ پر تاحال جیو نیوز یا دیگر فریقین کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
رواں برس نومبر میں دبئی میں مقیم پاکستانی نژاد 47 سالہ تاجرعمر فاروق نے جیو ٹی وی پر اینکر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام سمیت مختلف پاکستانی ٹی وی چینلز پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے فرح شہزادی (فرح خان) سے کچھ بیش قیمت اشیا خریدیں، جو سعودی فرمانروا محمد بن سلمان نے سابق وزیراعظم عمران خان کو بطور تحفہ دی تھیں۔
سعودی تحائف کی فروخت کے معاملے کے تناظر میں عمر فاروق، جن کا پورا نام شیخ عمر فاروق ظہور ہے، کی شخصیت اور ماضی سے متعلق بھی چہ مگوئیاں سننے میں آتی رہی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور اقتدار میں غیر سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف کا معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی زیر بحث آچکا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اس حوالے سے ایک درخواست زیر سماعت ہے جبکہ پاکستانی میڈیا بھی ماضی میں اس پر طبع آزمائی کر چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جبکہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں نو جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی 22 نومبر کو شروع ہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ دینے کے بعد فوجداری کاروائی کے لیے معاملہ اسلام آباد کی مقامی عدالت (سیشن کورٹ) کو بھیجا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے عدالت کے سامنے میں موقف اپنایا تھا کہ کیس گھڑی کے بارے میں نہیں، بلکہ جواب دہندہ کی جانب سے جمع کروائے گئے اثاثہ جات سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے تین سال کے دوران توشہ خانہ سے 58 تحائف حاصل کیے جن کی مجموعی مالیت مالیت 14 کروڑ 20 لاکھ روپے ہے۔
سعد حسن نے اپنے دلائل میں مزید کہا تھا: ’پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو اپنے تمام اثاثے الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر کرنا چاہیے تھے، عمران خان نے توشہ خانہ سے جیولری بھی لی تھی لیکن ظاہر نہیں کی۔‘
وکیل کا کہنا تھا: ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی تحفہ یا آئٹم توشہ خانہ سے ملکیت بنایا جائے اور ظاہر نہ کیا جائے۔‘
اس کیس میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر عدالت میں بیان بھی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کیا ہے؟
عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کے ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے عدالت کو شکایت منظور کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف کرپٹ پریکٹس کا ٹرائل کرنے اور انہیں سیکشن 167 اور 173 کے تحت سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
مذکورہ دو دفعات کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں تین سال جیل اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
توشہ خانہ نااہلی ریفرنس فیصلہ کیا تھا؟
الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بینچ نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ نااہلی ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا، جس میں کہا گیا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے جان بوجھ کر الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کی ہے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے غیر واضح بیان جمع کروایا، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن137 (اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کروانا)، سیکشن167 (کرپٹ پریکٹس) اور سیکشن 173 (جھوٹا بیان اور ڈیکلیریشن جمع کروانا) کی خلاف ورزی کی ہے اور یوں وہ الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی سفارش کی تھی۔
توشہ خانہ ریفرنس کس نے دائر کیا تھا؟
رواں برس چار اگست کو پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما محسن نواز رانجھا نے حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قانونی ماہرین کے دستخطوں کے ساتھ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ تخائف کی تفصیلات شیئر نہ کرنے پر سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین پاکستان کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں سرکاری تخائف کو بیرون ملک بیچنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا، جبکہ تمام دستاویزی ثبوت بھی ریفرنس کے ہمراہ جمع کرائے گئے تھے۔