خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی (کاوٗنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ یا سی ٹی ڈی) کے مرکز پر زیر حراست شدت پسندوں نے اتوار کو قبضہ کر لیا تھا، جو تاحال جاری ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی خیبر پختونخوا پولیس کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کی واحد ذمہ داری صوبے میں شدت پسندی میں ملوث افراد اور گروہوں کا سد باب کرنا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے سابق سینیئر افسر سید اختر علی شاہ کے مطابق سی ٹی ڈی کی ذمہ داریوں میں شدت پسند تنظیموں اور افراد کا قلع قمع کرنے کے غرض سے انٹیلیجنس، آپریشنز اور تفتیش جیسے کام سرانجام دینا شامل ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا: ’ان مقاصد کی خاطر سی ٹی ڈی مشکوک افراد کی ’پروفائلِنگ اور اِنڈیکسیشن‘ کے علاوہ خطرناک اور انتہائی مطلوب شدت پسندوں کی گرفتاری کے لیے انعامات کا تعین بھی کرتی ہے۔‘
خیبر پختونخوا پولیس کے دوسرے اور حاضر سروس سینیئر افسر نے بتایا کہ سال رواں کے دوران صوبے میں 700 سے 800 شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان تمام کامیابیوں کا سہرا سی ٹی ڈی کے سر جاتا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سینیئر پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2022 کے دوران گرفتار کیے گئے شدت پسندوں میں کم از کم 90 کی گرفتاری پر انعامات مقرر تھے۔
’یعنی گرفتار ہونے والوں کا شمار ہارڈکور، نہایت خطرناک اور بے حد مطلوب کی کیٹیگریز میں ہوتا ہے۔‘
بنوں کے حالیہ واقعے سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایسے واقعات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بنوں میں واقع سی ٹی ڈی کے مرکز میں تعینات قانون نافذ کرنے والے ایک اہلکار گذشتہ روز زیر حراست مبینہ شدت پسندوں سے تفتیش کر رہے تھے، جب شدت پسندوں میں سے ایک نے اسلحے تک رسائی حاصل کر کے وہاں موجود پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔
اس سے قبل 2017 میں بنوں شہر سے تقریبا 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اور سی ٹی ڈی تھانے (منڈان تھانہ) کی عمارت پر بم کے حملے میں کئی پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔
بنوں میں سی ٹی ڈی مرکز
بنوں میں سی ٹی ڈی کا یہ دفتر یا مرکز شہر کے شمال مغرب میں بنوں چھاوٗنی میں واقع ہے اور اسی عمارت سے سی ٹی ڈی کے ضلعی سربراہ (ایس پی) بھی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
بنوں سے تعلق رکھنے والے صحافی روفان خان کے مطابق خیبر پختونخوا کے اس جنوبی شہر میں قائم چھاوٗنی فصیل کے اندر گنجان علاقہ ہے جہاں سے اندر یا باہر جانے کے تین بڑے دروازے ہیں۔
روفان خان نے کہا کہ سی ٹی ڈی کے اسی دفتر کے قریب ہی دوسرے کئی سول اور فوجی اداروں کے دفاتر بھی موجود ہیں، جبکہ بڑی تعداد میں ریٹائرڈ ججوں، سول اور فوجی اہلکاروں کی رہائشں گاہیں بھی۔
پاکستان میں فوجی چھاوٗنیوں کے انتظام کے ذمہ دار ادارے ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس کی ویب سائٹ کے مطابق بنوں چھاوٗنی میں سویلین آبادی آٹھ ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے۔
بنوں میں سی ٹی ڈی مرکز کی عمارت ایک منزلہ ہے، جس میں چار کمرے موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا پولیس میں ذرائع کے مطابق بنوں کینٹ میں موجود سی ٹی ڈی کے مرکز میں عام طور پر گرفتار افراد کو رکھا نہیں جاتا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس عمارت میں عام طور پر دفتری نوعیت کا کام کیا جاتا ہے، اور بعض اوقات ایسی ہی نوعیت کے کاموں کی غرض سے زیر حراست افراد کو عارضی طور پر اس مرکز میں رکھا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ زیر حراست مبینہ شدت پسندوں کو بنوں شہر سے باہر سی ٹی ڈی تھانے میں رکھا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں سی ٹی ڈی کی تاریخ
2000 کی دہائی کے اوائل میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد ان میں ملوث افراد اور گروہوں پر کام کرنے کی ذمہ داری صوبائی پولیس کے ایک ذیلی محکمے سی آئی ڈی کے سپرد کی گئی۔
تاہم چند سال بعد ہی پولیس میں کاوٗنٹر ٹیرر اِزم ڈائریکٹوریٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جسے خصوصی طور پر شدت پسندی کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
خیبر پختونخوا میں 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی، جس نے بعد ازاں کاوٗنٹر ٹیرراِزم ڈائریکٹوریٹ کا درجہ بلند کرتے ہوئے 2014 میں اسے ایک مکمل محکمے میں تبدیل کر دیا، جسے کاوٗنٹر ٹیرراِزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کا نام دیا گیا۔
خیبر پختونخوا کے ہر ضلع میں تھانوں اور دوسرے مراکز و دفاتر کے ساتھ سی ٹی ڈی کی سربراہی ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کی سطح کا پولیس افسر کرتا ہے، جن کی مدد کے لیے ایس پیز تعینات ہیں۔
سابق سینیئر پولیس افسر سید اختر علی شاہ نے بتایا کہ سی ٹی ڈی کے اہلکار انٹیلیجنس اور تفتیش کے علاوہ عملی میدان میں آپریشنز میں بھی حصہ لیتے ہیں۔
ان کے خیال میں سی ٹی ڈی سے منسلک پولیس جوانوں اور افسران کی تعداد تقریبا ڈھائی ہزار ہے۔
وفاقی حکومت کا موقف
وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ خان کا کہنا ہے کہ ایک سال میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے 300 واقعات کا ہونا سنگین صورت حال ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت ’سوئی‘ ہوئی ہے۔
پیر کو ایک بیان میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ملازمین کی تنخواہ اور پینشن اور شہدا کو ادائیگیوں کے لیے پیسے موجود ہیں اور نہ ہی نو سال میں کے پی میں ترقی ہوئی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’وفاق پر حملے کے لیے بندوقیں اور بندے جمع کرنے والوں نے سی ٹی ڈی کی مضبوطی کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رانا ثنااللہ نے کہا کہ وفاق نے بھی خیبرپختونخوا کو پولیس اور سی ٹی ڈی کی استعداد کار میں اضافے کی پیشکش کی تھی لیکن آج تک جواب نہیں ملا۔
’سی ٹی ڈی شہدا پیکج پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 150 فیصد کا فرق کیوں ہے؟ صوبائی حکومت آنکھیں بند کئے کیوں بیٹھی رہی؟
سی ٹی ڈی پنجاب اور سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کی تنخواہوں میں 70 فیصد کا فرق ہے لیکن صوبائی حکومت نے آج تک اس پر بات نہیں کی۔
سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کے لیے کوئی ٹریننگ سکول ہی موجود نہیں، نو سال میں کیوں اس پر توجہ نہ دی گئی؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ پورے صوبے میں ایس ایس پی رینک کے صرف ایک افسر کا تعینات ہونا عمران خان اور وزیراعلی کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انہوں نے خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی ڈپارٹمنٹ کی ’تباہی‘ کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیتے ہوئے کہا: ’انہیں وفاق اور اداروں سے لڑنے سے فرصت ملے تو دہشت گردی کے مقابلے پر غور کریں۔‘