افغان وزارت دفاع نے پیر کو کہا کہ افغانستان میں پاکستانی طالبان کی موجودگی اور ان پر افغانستان کی سرزمین کے اندر ممکنہ حملے کے حوالے سے پاکستانی وزیرِ داخلہ کا حالیہ بیان اشتعال انگیز اور بے بنیاد ہے۔
افغان وزارت دفاع نے اعلامیے میں مزید کہا کہ پاکستانی طالبان کی موجودگی کے شواہد خود پاکستان میں موجود ہیں۔
’پاکستانی حکام کے اس طرح کے دعوے دونوں پڑوسی اور برادر ممالک کے درمیان قائم اچھے تعلقات کو نقصان پہنچائیں گے۔‘
افغان وزارت دفاع نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا کہ افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے ہر خدشے کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔
اعلامیے کے مطابق: ’افغانستان لاوارث ملک نہیں۔ افغان عوام ہمیشہ کی طرح ملک کے زمینی سرحدوں اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تیار ہیں اور اپنی سرزمین کی حفاظت کا سب سے بہتر تجربہ رکھتے ہیں۔‘
پاکستانی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئی ہیں، جب کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے حالیہ ہفتوں میں پاکستان کے مختلف حصوں میں حملے کیے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے حکومت کے ساتھ طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرنے اور اپنے جنگجوؤں کو ملک بھر میں حملے کرنے کے احکامات جاری کرنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں شدت آئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رانا ثناء اللہ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر طالبان انتظامیہ ٹی ٹی پی کو ختم کرنے اور عسکریت پسندوں کو پاکستان کے حوالے کرنے میں ناکام رہی تو پاکستان افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر حملہ کر سکتا ہے۔
رانا ثناء اللہ نے پاکستان کے ایک نجی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ’جب یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ہم سب سے پہلے اپنے اسلامی برادر ملک افغانستان سے کہتے ہیں کہ وہ ان ٹھکانوں کو ختم کرے اور ان افراد کو ہمارے حوالے کرے، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو جو آپ نے ذکر کیا ہے وہ ممکن ہے۔‘
افغان میڈیا کے مطابق افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’کسی ملک کو کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر حملہ کرنے کا حق نہیں۔‘
افغانستان کی طلوع نیوز ایجنسی نے ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے سے بتایا کہ دنیا میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں جو اس طرح کی زیادتی کی اجازت دیتی ہو۔
’اگر کسی کو کوئی پریشانی ہے تو وہ امارت اسلامیہ کے ساتھ شئیر کرے کیونکہ اس کے پاس کافی افواج ہے اور وہ کارروائی کر سکتی ہے۔‘
وزارت نے کہا، ’پاکستانی حکام کے اس طرح کے دعووں سے دونوں ہمسایہ اور برادر ممالک کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچتا ہے، حالانکہ ثبوت موجود ہیں کہ (ٹی ٹی پی) کے مراکز پاکستان کے اندر ہیں۔‘
’ہم درخواست کرتے ہیں کہ کسی بھی خدشات اور مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے۔‘
پاکستان اور افغان طالبان کی حکومتوں کے درمیان حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کو لے کر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی نے بھی 28 نومبر کو حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد حملوں میں اضافہ کیا ہے۔