’بینائی نہیں، آواز سن کے گاڑی ٹھیک کرتا ہوں‘

محمد حفیظ ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے لیکن 2003 اور پھر 2005 کے دوران زندگی میں ایسی بڑی مصیبت آئی، جس کا تصور وہ اپنے برے سے برے خواب میں بھی نہیں کر سکتے تھے۔

زندگی میں کب اور کیا مصیبت آن پڑے اس کا آج تک کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔

کچھ لوگ ان مصیبتوں سے اتنے پریشان اور مایوس ہو جاتے ہیں کہ وہ جینے کی امید چھوڑ دیتے ہیں لیکن اگر انسان کے حوصلے بلند اور قوتِ ارادی مضبوط ہو تو کیا کرنا ممکن نہیں۔

انڈیا کی جنوبی ریاست تلنگانہ کے ورنگل ضلع سے تعلق رکھنے والے محمد حفیظ  ایسی ہی ایک  شخصیت ہیں جنہوں نے بلند حوصلوں اور مضبوط قوت ارادی سے ناقابل تصور اور بڑی مصیبتوں کو شکست دی۔

محمد حفیظ قوت بصارت سے محروم ضرور ہیں لیکن وہ اپنے قوت بازو پر زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔

وہ ایک آٹو مکینیک ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میں ’انجن کی آواز کی مدد سے گاڑی کی خرابی کا پتہ لگا کر اس کی مرمت کرتا ہوں‘ جو شاید کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

محمد حفیظ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میں نے حوصلے کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کیا۔ اپنی مجبوری کو کمزوری نہیں بنایا اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود محنت کر کے اپنا خاندان پالنے کو ترجیح دی۔‘

محمد حفیظ ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے لیکن زندگی میں ایک ایسی بڑی مصیبت آئی جس کا تصور وہ اپنے برے سے برے خواب میں بھی نہیں کر سکتے تھے۔

وہ 2003 میں ایک حادثے کا شکار ہو گئے اور چوٹ کے باعث ان کی بائیں آنکھ کی روشنی چلی گئی تاہم انہوں نے ہمت نہ  ہارتے ہوئے دوبارہ سے زندگی کی جنگ لڑنے کا عزم کیا، تاہم قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔

2005 میں ایک اور سانحہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی کو پوری طرح سے اندھیرے میں دھکیل دیا۔

محمد حفیظ کے بقول: ’2005 میں دیوالی کے موقعے پر بچوں کے لیے پٹاخے لایا تھا۔ سب مل کر دیوالی منا رہے تھے کہ اچانک پٹاخہ آنکھ پر لگا‘ جس کے باعث ان کی دوسری آنکھ بھی متاثر ہوئی اور زندگی میں تاریکی چھا گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد حفیظ نے بتایا کہ ’اُس وقت میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہا تھا۔ ذہنی تکلیف کا احساس ستانے لگا تھا۔ ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے اور سوچ رہا تھا کہ اب میں دوسروں پر بوجھ بن گیا۔ اس اندھیرے میں کس طرح کام کر لوں زندگی برباد ہو گئی۔

’ایک دن زندگی سے مایوس ہو کر انتہائی قدم کا سوچا، لیکن خیال آیا کہ خودداری خود کو خاتمہ کرنے سے نہیں بلکہ زندگی کی جنگ سے لڑنے میں ہے۔‘

بقول محمد حفیظ: ’پیدائشی معذور چل سکتے ہیں لیکن میں نہیں چل سکتا ہوں۔ اکثر چلتے چلتے ٹھوکر کھا کر گر جاتا، ٹھوکریں لگنے کی وجہ سے ہاتھ پاوں زخمی ہوتے تھے۔‘

محمد حفیظ کی آنکھوں میں تاریکی ضرور ہے لیکن وہ اپنے اہل خانہ کی زندگی میں روشنی بکھیر رہے ہیں۔ وہ خاندان کی کفالت اور باعزت زندگی گزارنے کے باعث سب کے لیے ایک بہترین مثال بنا ہوئے ہیں خاص طور پر ان کے لیے جو صحت کامل ہونے لیے باوجود بھی دوسروں پر منحصر ہوتے ہیں۔

محمد حفیظ خوش ہیں کہ وہ کسی کے سامنے سر جھکائے بغیر بہترین زندگی گزارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا