ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے حوالے سے انڈین دعوت نامہ موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دعوت نامے کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اجلاس میں شرکت کے حوالے سے فیصلہ سوچ بچار کے بعد کیا جائے گا۔
جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں اور اس تنظیم کی چیئرمین شپ رواں برس انڈیا کے پاس ہے، اس لیے انڈیا وزرائے خارجہ اجلاس کی میزبانی کررہا ہے۔‘
انڈیا کے پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کے منصوبے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’اس تفصیل میں نہیں جاؤں گی۔ ماضی میں بھی انڈیا ایسی مذموم سازشوں میں ملوث رہا ہے۔ انڈیا نے بارہا پاکستان کو بدنام کرنے کی خاطر مختلف ڈرامے اور سازشیں کی ہیں۔‘
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے انڈیا سے مذاکرات کے بیان پر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا: ’اس وقت پاکستان اور انڈیا میں مذاکرات کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مذاکرات کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ باتیں قبل ازوقت ہیں۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اور انڈین دعوت نامہ
شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں اجلاس رواں برس انڈیا میں ہو گا جبکہ سربراہان مملکت سے قبل وزرائے خارجہ کا اجلاس مئی میں انڈیا کے شہر گووا میں ہو گا۔
گذشتہ روز انڈین دفتر خارجہ کے حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی تھی کہ اسلام آباد میں موجود انڈین ہائی کمیشن نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس کا دعوت نامہ پاکستانی دفتر خارجہ کو پہنچا دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کا دعوت نامہ بھجوانے کے تین ذریعے ہوتے ہیں۔ پہلا ذریعہ تو یہ ہے کہ میزبان ملک میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن یا سفارت خانے کے توسط سے پاکستانی دفتر خارجہ کو مراسلہ یا دعوت نامہ پہنچایا جاتا ہے اور اگر یہ طریقہ استعمال نہ کیا جائے تو میزبان ملک اپنے سفارت خانے کے توسط سے متعلقہ ملک کو دعوت نامہ بھجواتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر یہ دونوں طریقے استعمال نہ کیے جائیں تو شنگھائی تعاون تنظیم کا مرکزی سیکرٹیریٹ خود رکن ممالک کو اجلاس کے دعوت نامے بھجواتا ہے۔
اگر پاکستان دعوت قبول کرتا ہے تو بلاول بھٹو زرداری تقریباً 12 سال کے وقفے کے بعد انڈیا کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر خارجہ ہوں گے۔
پاکستان اور انڈیا 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان میں دو جنگیں کشمیر کی وجہ سے ہوئیں۔
انڈیا کا الزام ہے کہ اس کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان کئی دہائیوں سے جاری لڑائی کو ہوا دے رہا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ انڈیا کے الزامات کی تردید کی ہے۔
2019 کے آخر میں ایک بار پھر اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہوا جب بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کردی۔
انڈیا کی جانب سے پاکستانی وزیر خارجہ کو دعوت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے، جب ایک ماہ قبل بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں سخت بیان دیا تھا، جس پر انڈیا میں سڑکوں پر احتجاج ہوا تھا اور نئی دہلی نے بلاول بھٹو زرداری کے بیان کو ’غیر مہذب‘ قرار دیا تھا۔
اسی طرح چند روز قبل پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر انڈیا کے ساتھ مذاکرات کی بات کی تھی۔
متحدہ عرب امارات نے دونوں ملکوں میں ثالثی کی آخری کوشش 2021 میں کی تھی اور شہباز شریف نے انڈیا کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک بار پھر یو اے ای کی مدد مانگی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم جنوبی اور وسطی ایشیا میں پھیلی ایک بڑی بین العلاقائی تنظیم ہے، جس کا باقاعدہ قیام 2001 میں عمل میں آیا۔
اس سے قبل 1996 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پانچ رکن ممالک تھے جنہیں شنگھائی پانچ بھی کہا جاتا تھا۔ ابتدائی اراکین میں چین، روس، قزاقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔
جب 2001 میں ازبکستان بھی شامل ہوا تو اس کا نام شنگھائی فائیو سے تبدیل کر کے شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔
چونکہ اس وقت نائن الیون کے بعد سے شدت پسندی عروج پر تھی اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز بھی ہو چکا تھا، اس لیے ابتدا میں اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا تھا۔
بعد ازاں رکن ممالک کے مابین سکیورٹی اور تجارتی تعلق کی مضبوطی اور امن کے قیام کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔
2017 میں آستانہ میں ہونے والے تنظیم کے اجلاس میں انڈیا اور پاکستان کو بھی مستقل رکن کے طور پر اس میں شامل کیا گیا، جس کے بعد رکن ممالک کی تعداد اب آٹھ ہو چکی ہے۔
افغانستان، بیلاروس، ایران اور منگولیا ایس سی او کے آبزرور رکن ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال، ترکی، آذربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا اور سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں۔