ویڈیو میں دکھائی جانے والی خواجہ سرا بچی دراصل بچہ ہے: پولیس

ٹبی تھانے کے سب انسپکٹر عظیم انور نے بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جب ہم نے تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ ویڈیو میں دکھائی جانے والی خواجہ سرا بچی دراصل بچہ ہے جس کا نام زین ہے۔‘

تھانہ ٹبی کے مطابق زین کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے حوالے کر دیا گیا ہے (لاہور پولیس آفیشل ٹوئٹر)

پاکستانی سوشل میڈیا پر گذشتہ رات ایک ویڈیو وائرل ہوئی جو مبینہ طور پر ایک نو سالہ خواجہ سرا بچی کی تھی۔

اس ویڈیو کو بنانے اور ٹوئٹر پر پوسٹ کرنے والی شہزادی رائے بھی ایک خواجہ سرا ہیں۔

ویڈیو میں بچی اپنا نام بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ ’پیشہ‘ کرتی ہے۔

شہزادی رائے نے یہ ویڈیو ٹویٹ کی اور لکھا ’میں اس نو سالہ خواجہ سرا بچی سے ملی۔ اس کے والدین  نے اسے جسم فروشی، منشیات فروشی پر مجبور کیا اور بچی بھی آئس نشے کی عادی ہے۔ یہ انتہائی دل دہلا دینے والی صورت حال ہے۔ برائے مہربانی اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کریں، اس کیس کو اجاگر کریں اور اس بچی کو بچائیں۔‘

شہزادی رائے نے اپنی اس ٹویٹ میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو کو بھی ٹیگ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس کیس میں مداخلت کریں۔

ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو نے اتوار کی دوپہر اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا اور لکھا کہ متاثرہ فریق کے گھر کے پتے کی مکمل تفصیلات بیورو کی ہیلپ لائن 1121 پر دیں تاکہ اس کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

دوسری جانب اتوار کی شام کو لاہور پولیس نے شہزادی رائے کی ٹویٹ پر جواب دیا کہ ’‏ڈی آئی جی آپریشنز لاہور افضال احمد کوثر اور ایس ایس پی آپریشنز نے ویڈیو پر نوٹس لیا اور لڑکی بن کر بھیک مانگنے والے 11 سالہ زین کو ٹبی سٹی پولیس نے بحفاظت چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا ہے۔‘

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے پیر کو انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ بچے کو بیورو کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

لاہور پولیس کے مطابق ’زین فیملی کی دیکھ بھال کے لیے خواجہ سراؤں کے ساتھ مل کر بھیک مانگتا تھا۔‘

پولیس نے اپنی ٹویٹ میں یہ بھی لکھا کہ ’زین کے والدین ذہنی معذور اور بچوں کی پرورش سے قاصر ہیں۔‘

اس ٹویٹ کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے مزید تفصیلات جاننے کے لیے متعلقہ تھانہ ٹبہ سٹی رابطہ کیا۔

رابطہ کرنے پر تھانہ ٹبہ سٹی کے سب انسپیکٹر عظیم انور نے بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جب ہم نے تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ ویڈیو میں دکھائی جانے والی خواجہ سرا بچی دراصل بچہ ہے جس کا نام زین ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی عمر دس سے 11 سال ہے اور ہم نے تصدیق کر لی ہے وہ جسمانی طور پر لڑکا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زین کی دو بہنیں ہیں جنہیں ان کی خالہ کئی برس پہلے اپنے ساتھ راولپنڈی لے گئی تھیں جبکہ زین کے والدین ذہنی طور پر مستحکم نہیں، نہ ان کے پاس رہنے کی کوئی جگہ ہے۔‘

’یہ لوگ سارا دن یونہی پارکوں وغیرہ میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔ زین اسی طرح بھیس بدل کر بھیک وغیرہ مانگ کر اپنا اور والدین کا گزر بسر کر رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ زین کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

شہزادی رائے نے اپنی ٹویٹ میں ان کی ایک اور ساتھی انایہ کو اس میں نامزد کیا کہ اگر اس کیس کے سلسلے میں مزید معلومات کے لیے ان سے رابطہ کیا جائے۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انڈپینڈنٹ اردو نے انایہ سے رابطہ کیا جنہوں نے بتایا کہ ’اس بچی کا تعلق اندرون لاہور سے ہے۔ اس بچی کی پہلی ویڈیو 2019 میں آئی تھی جس میں یہ خواجہ سرا گروؤں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور انہوں نے اس ویڈیو میں اس بچی کا تعارف کروایا تھا۔‘

انایہ نے بتایا کہ ’اس خواجہ سرا بچی کے والدین نشے کے عادی ہیں اور اس کے ذریعے پیسے کماتے ہیں تاکہ وہ نشہ کر سکیں۔‘

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈووکیٹ احمر مجید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 میں ویسے تو بدقسمتی سے بچوں کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ سیکشن موجود نہیں ہے، لیکن اس میں ایک سیکشن آتا ہے جس کے مطابق اگر کوئی کسی ٹرانسجینڈر سے بھیک منگواتا ہے تو اس کے لیے تھوڑی سی سزا رکھی ہوئی ہے۔‘

’اگر پروٹیکشن کے حوالے سے بات کریں تو پنجاب تحفظ اطفال ایکٹ 2004 میں 11 نکات ایسے ہیں جو بچے کو حفاظتی تحویل میں لینے کی شرائط بیان کرتے ہیں، اگر ہم اس بچی کو دیکھیں تو یہ کم از کم دس نکات پر پوری اترتی ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو ہی اس بچی کو بچا سکتا ہے۔ اس کے والدین کو بلا کر انہیں سزا بھی دے سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان