پشاور پولیس لائنز کی مسجد کے باہر ریک اور نیچے کے داخلی دروازے پر درجنوں جوتے بکھرے پڑے ہیں جن پر ریسکیو آپریشن کی وجہ سے گرد و غبار بھی پڑا ہوا نظر آتا تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ جوتے کن کے ہیں کیوں کہ بعض جوتے پولیس یونیفارم کا حصہ تھے۔
پاس ہی کھڑے ایک پولیس اہلکار سے پوچھا کہ یہ اتنے جوتے کس کے ہیں؟
جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’یہ نمازیوں کے ہیں جو سر بسجود اس دنیا سے چلے گئے۔‘
ملبے سے بھری مسجد کے احاطے کو صاف کیا جا رہا تھا جبکہ درجنوں ریسکیو اہلکار، پولیس اور میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے جبکہ وقفے وقفے سے پولیس کی اعلیٰ قیادت بھی جائے وقوعہ کا معائنہ کر کے واپس جا رہی تھی۔
یہ مناظر پشاور پولیس لائنز کی اس مسجد کے تھے جہاں پیر کو پولیس کے مطابق خودکش حملہ ہوا جس میں کم از کم 100 افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔
یہ مسجد دو حصوں پر مشتمل تھی۔ ایک حصہ پرانی عمارت جبکہ دوسرا حصہ دو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ دھماکہ پولیس کے مطابق پرانے حصے میں ہوا تھا۔
نئی تعمیر شدہ عمارت کی دو داخلی دروازے تھے اور جب داخلی دروازے سے کوئی داخل ہوتا ہے تو اندر پرانے حصے کی طرف دو چھوٹے چھوٹے دروازے تھے جو پرانی عمارت کے ہال کی طرف کھلتے تھے۔
پولیس کے مطابق مسجد میں 400 نمازیوں کی گنجائش ہے اور ظہر اور عصر کی نماز میں لوگ زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ ڈیوٹی کے اوقات میں اہلکار یہاں آکر نماز ادا کرتے ہیں۔
نئی تعمیر شدہ عمارت کو نقصان نہیں پہنچا ہے کیوں کہ ریسکیو ذرائع کے مطابق دھماکہ پرانے حصے میں ہوا تھا جہاں پر امام بھی کھڑا تھے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جا انصاری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے کی گونج سے مسجد کی چھت گر گئی تھی اور ملبہ نمازیوں پر آگیا تھا اور اسی وجہ سے اموات بھی زیادہ ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’خود کش حملے میں 10 سے 12 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے جس سے اتنا نقصان نہیں ہوا لیکن زیادہ اموات مسجد کی چھت گرنے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔‘
مسجد کا وہ حصہ جہاں چھت گری تھی ایسا منظر پیش کر رہا تھا جیسے کسی نے پرانی عمارت کو منہدم کر کے ملبہ ادھر ادھر پھینکا ہو۔ یہ مسجد دو منزلہ تھی اور نئی عمارت کی بالائی منزل بھی بالکل محفوظ تھی۔
مسجد کے شیشے، ٹوٹے ہوئے پنکھے، پولیس کی ٹوپیاں اور مسجد کی قالین پر پڑا خون خشک ہوگیا تھا جبکہ مسجد کی دیواروں پر قرانی آیات لکھی ہوئی نظر آرہی تھیں۔
ریسکیو اہلکاروں نے آپریشن مکمل کر لیا تھا لیکن اسی دوران ایک شخص نے آکر یہ بتایا دیا کہ ان کا قریبی رشتہ دار نہ ہسپتال میں ہے، نہ زخمیوں میں شامل ہے اور نہ مرنے والوں کی لسٹ میں ہے لہٰذا ان کو یہاں ملبے میں تلاش کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریسکیو نے جگہ کی تلاشی لی لیکن ان کو کوئی لاش نہیں ملی اور یوں 24 گھنٹوں سے زیادہ دورانیے پر محیط آپریشن کو مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بہت احتیاط سے آپریشن کیا گیا تھا کیوں کہ ملبے تلے لاشیں موجود تھیں جبکہ گذشتہ روز دو افراد کو زندہ بھی نکال لیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’زیادہ اموات چھت گرنے کی وجہ سے ہوئی ہیں کیوں کہ ملبہ نمازیوں پر آگیا تھا جن میں بعض افراد کے جسم کے اعضا بھی کٹ گئے تھے لیکن ہم نے بہت احتیاط سے لاشوں کو نکالا تھا۔‘
آج پولیس لائن کی سکیورٹی معمول سے سخت تھی اور ہر اندر آنے والے فرد کی تلاشی سمیت ان سے شناختی کارڈ بھی لیا جارہا تھا اور ان کا رجسٹر میں باقاعدہ اندراج بھی کیا جارہا تھا۔
آئی جی پولیس معظم جا انصاری سے جب پوچھا گیا کہ پولیس لائن میں خود کش حملہ آور کا داخلہ سکیورٹی لیپس نہیں ہے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی لیپس ہے لیکن عام دنوں میں پشتون روایات کے مطابق تھوڑی نرمی کی جاتی ہے کیوں کہ پولیس لائن میں روزانہ کی بنیاد پر 1500 سے دو ہزار افراد آتے ہیں جس میں سائلین اپنے شکایات متعلقہ افسران کو پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’ہم نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی ہے اور اپنے طور پر بھی انکوائری کر رہے ہیں کہ لیپس کہاں پر ہوا ہے۔‘
خود کش حملہ آور کے بارے میں معظم جا نے بتایا کہ خود کش حملہ آور خودکش جیکٹ سمیت پولیس لائن میں داخل نہیں ہوا ہے بلکہ اس نے یہ اندر آکر ’ارینج‘ کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’پچھلے ایک مہینے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت تمام افراد کا ڈیٹا چیک کیا جا رہا ہے کہ خود کش حملہ آور کے سہولت کار کون تھے لیکن یہ تفتیش 24 گھنٹوں میں ممکن نہیں بلکہ اس میں وقت لگے گا۔‘
وہیں سادہ کپڑوں میں ملبوس دو پولیس اہلکاروں کو میں نے دیکھا جن کی آنکھوں میں آنسوں تھے اور وہ یہی کہہ رہے تھے کہ نمازیوں پر حملہ کرنا نہایت ہی بزدلانہ فعل ہے۔
ان میں سے ایک سے میں نے پوچھا کہ آپ بھی روزانہ یہاں نماز ادا کرنے آتے ہیں تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا ’میں ظہر اور عصر کی نماز اسی مسجد میں ہی ادا کرتا ہوں لیکن دھماکے کے دن ڈیوٹی تبدیل ہونے کی وجہ سے ظہر پڑھنے یہاں نہیں آیا تھا ورنہ شاید آج میں بھی شہید ہوچکا ہوتا۔‘