پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر اور سابق گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب عباسی نے پارٹی قیادت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ غلط تھا اور پی ایم ایل میں پارٹی عہدے نام کے ہیں، بات شخصیات کی چلتی ہے۔
سردار مہتاب عباسی نے ایبٹ آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا، ’پاکستان مسلم لیگ کی قیادت ایسے ہاتھوں میں ہے کہ ان کا پارٹی سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن بڑی جماعت ہوا کرتی تھی لیکن اب پنجاب تک محدود ہو گئی ہے۔‘
سردار مہتاب عباسی کے بیان پر پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے گذشتہ رات جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بتایا کہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ کے رہنما امیر مقام، پارٹی کے صوبائی سیکرٹری جنرل مرتضیٰ جاوید عباسی اور سردار مہتاب عباسی کے مابین کو اختلافات ہیں، جو گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’ہم نے پہلے بھی ان تینوں کے مابین اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی تھی اور اب بھی کی ہے لیکن اب حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ یہ تینوں اب اکٹھے نہیں چل سکتے۔ مریم نواز ایبٹ آباد جا رہی ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ وہ ان کو بٹھا کر اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔‘
سردار مہتاب عباسی نے گذشتہ روز ٹوئٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے پارٹی عہدے سے استعفیٰ کا اعلان بھی کر دیا۔ انہوں نے لکھا، ’میں مسلم لیگ کے پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ فوری انتخابات کروائیں اور ملک کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔‘
یاد رہے کہ سردار مہتاب خان عباسی گذشتہ تقریباً چار دہائیوں سے پاکستان مسلم لیگ کا حصہ ہیں۔ مہتاب عباسی 1990 سے 1993 تک کشمیر امور کے وزیر رہے تھے اور 1997 سے 1999 تک خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔
مہتاب عباسی 1993 سے 1996 میں بھی رکن قومی اسمبلی رہے ہیں، اور پرویز مشرف کے مارشل لا نافذ کرنے کے بعد ان کو 1999 میں ایبٹ آباد سے گرفتار کیا گیا تھا جس وقت وہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ تھے۔
اس کے بعد مہتاب عباسی 2003 میں سینیٹر منتخب ہو گئے اور 2008 تک سینیٹر رہے اور 2008 کے عام انتخابات میں ایبٹ آباد سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور کچھ عرصہ کے لیے وزیر ریلوے بھی رہے ہیں۔
بعد میں جب وفاق میں مسلم لیگ کی حکومت 2013 میں بنی تو مہتاب عباسی کو 2014 میں گورنر خیبر پختونخوا تعینات کر دیا گیا اور 2016 تک وہ اس عہدے پر فائر رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رکن قومی اسمبلی کے علاوہ مہتاب عباسی نے 1985 سے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد کوئی بھی سیٹ نہیں ہاری ہے۔ آپ 1986 سے 1988 تک خیبر پختونخوا کے قومی اسمبلی کے رکن تھے اور اس وقت وزیر صحت اور وزیر قانون بھی رہے ہیں جبکہ 1988 سے 1990 تک بھی وہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن تھے۔
صوبائی قیادت کے مابین اختلافات کس بات پر ہے؟
رانا ثنااللہ کے مطابق مسلم لیگ کی صوبائی قیادت جس میں امیر مقام، مرتضیٰ جاوید عباسی اور سردار مہتاب عباسی شامل ہیں، کے مابین شدید اختلافات ہیں جس کی وجہ سے یہ اکٹھے نہیں چل سکتے۔
اسی حوالے سے ہم نے جاننے کی کوشش کی ہے، کہ یہ اختلافات کس بات پر ہیں اور پارٹی کے تینوں صوبے کے سینیئر رہنما کیا چاہتے ہیں۔
سردار مہتاب عباسی اور ایبٹ آباد ہی سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے بااثر رہنما اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کے مابین اختلافات 2014 سے تب شروع ہو گئے تھے۔
کمال حسین کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور اس علاقے کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سردار مہتاب اور مرتضیٰ جاوید عباسی کے مابین اختلافات اسی بات پر ہیں کہ دونوں چاہتے ہیں پارٹی کے صوبائی معاملات ان کے ہاتھوں میں ہوں۔
کمال نے بتایا کہ اس کے بعد یہ اختلافات2018 کے انتخابات میں تب کھل کر سامنے آئے تھے جب پاکستان مسلم لیگ ن نے سردار مہتاب عباسی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے سے معذرت کر کے مرتضیٰ جاوید عباسی کو ٹکٹ دیا تھا، البتہ حلقہ این اے 16 سے سردار مہتاب کے بیٹے سردار شہریار خان کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ مل گیا تھا۔
کمال حسین نے بتایا، ’اختلافات کی وجہ سے سردار مہتاب نے بیٹے کا ٹکٹ پارٹی کو واپس کر دیا تھا، اور انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔2018 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ سردار مہتاب کے رشتہ دار سردار فرید کو دیا تھا، اور سردار مہتاب کے فیصلے کے بعد سردار فرید نے بھی مسلم لیگ کی ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کیا تھا اور آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا تھا۔‘
اسی طرح کمال حسین نے بتایا کہ مرتضیٰ جاوید عباسی مریم نواز اور پارٹی کے دیگر مرکزی قیادت کے قریب سمجھے جاتے ہیں، جبکہ جاوید عباسی 2013 کے انتخابات میں ہارنے کے بعد علاقے سے بھی ذرا دور ہو گئے تھے اور لوگوں سے کم ملتے تھے۔
انہوں نے بتایا، ’دونوں رہنماؤں کے مابین اختلافات اتنے ہیں، کہ انتخابات میں یہ بظاہر تو ایک نظر آتے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے خلاف اور دیگر جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ دونوں چاہتے ہیں کہ ان کے اپنے بندے پارٹی کے عہدوں پر موجود ہوں۔‘
کمال حسین نے بتایا کہ ابھی آئندہ آنے والے انتخابات میں بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ پارٹی کے ٹکٹ مرتضیٰ جاوید عباسی کے بندوں کو دیے جائیں گے کیونکہ سردار مہتاب کا بیٹا پچھلے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل ناظم کی سیٹ تقریباً 30 ہزار ووٹ سے ہار گیا تھا۔
’ایک حلقے کی سیاست‘
کمال سے جب پوچھا گیا کہ کیا مہتاب عباسی کی پارٹی چھوڑنے سے مسلم لیگ کی ہزارہ ڈویژن میں سیاست پر کوئی اثر پڑے گا، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سردار مہتاب کی سیاست ایک حلقے اور ایک ضلعی تک محدود ہے جبکہ ہزارہ ڈویژن میں باقی اضلاع میں اپنے اپنے سیاسی بندے مضبوط ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’مانسہرہ کا اپنا سیاسی ڈھانچہ ہے اور وہاں پر سردار مہتاب یا جاوید عباسی کا کوئی اثر رسوخ نہیں ہے، تو یہ سارے اختلافات ایک ہی سیٹ پر ہیں جو قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہے اور ایک صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے۔‘
امیر مقام کے ساتھ سردار مہتاب کے اختلافات کے حوالے سے کمال حسین نے بتایا کہ چونکہ امیر مقام صوبائی صدر ہیں، اور مرکزی قیادت کے قریب ہیں جبکہ دوسری جانب مرتضیٰ جاوید عباسی کے بھی قریب ہیں تو اسی وجہ سے سردار مہتاب کے ان کے ساتھ اختلافات ہیں۔
کمال حسین نے بتایا، ’مرتضیٰ جاوید عباسی کے قریب رہنے والے کے ساتھ سردار مہتاب کے ضرور اختلافات ہوں گے، کیونکہ یہ دونوں خاندان اپنے حلقے میں اپنی طاقت اور اثر رسوخ رکھنا چاہتے ہے۔‘
اس سارے معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر امیر مقام سے بات کرنے کی کوشش کی مگر ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔