گذشتہ دور حکومت میں ووٹر لسٹ میں معمولی سی تبدیلی کی بنیاد پرجب یہ کہا گیا کہ میاں نواز شریف قادیانیت نواز ہیں، تب مولانا فضل الرحمن حکومت کا حصہ تھے۔ خادم حسین رضوی ملک بھر سے ہرے بھرے گدی نشینوں کو لے کر اقتدار کے سومنات پر پے در پے حملے کر رہے تھے۔ ایک وقت آیا کہ وہ ملک کا بھٹہ بٹھانے میں کامیاب ہوگئے۔ فیض آباد میں وہ ایک ایسی سڑک پر بھی بیٹھے جو پانچ شہروں کو ملاتی تھی۔اس پورے عرصے میں غیب سے رزق کا اہتمام ہوتا رہا تھا اور ریاستی مشینری خادم صاحب کی معصوم خواہشیں پوری کرنے کے لیے ہردم مستعد کھڑی تھی۔
اب جب حکومت بدل گئی ہے اور آسیہ مسیح کی رہائی کی وجہ سے عمران خان کے ’جرائم‘ کی فہرست بڑھ گئی ہے تو خادم حسین رضوی نے چھوٹے مسائل پر بات کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ دو ہفتے بعد رخِ انور کا جلوہ کرواتے ہیں اور معاشیات و اقتصادیات کے پر پیج کلیوں کو آسان الفاظ میں کھول کر چلے جاتے ہیں۔ ان کے چہرے کا اطمینان عقیدت مندوں پر یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ ان دنوں اسلام کے پانچوں ستون خطرے سے باہر ہیں۔ البتہ مولانا فضل الرحمن گلی گلی یہ بات بتاتے پھر رہے ہیں کہ ایک سیلابِ بلا خیز ملکی سرحدات پر پیج وتاب کھا رہا ہے۔ مبادا کہ وہ دن آئے جب عمران بند کھولے اور اسلام کا ہر مرکز خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے، سو فرزاندانِ توحید کو علم بغاوت بلند کر دینا چاہیے۔
یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مذہبی جماعتیں مذہبی کارڈ کیوں استعمال کرتی ہیں۔ غیرمذہبی جماعتیں مذہب کارڈ کیوں استعمال کرتی ہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ پھر جو بات سمجھنے میں اس سے بھی زیادہ مشکل ہے وہ یہ ہے کہ جو جماعتیں مذہب کارڈ کا شکار ہوچکی ہیں، جب کبھی موقع ملا تو پلٹ کر انہوں نے وہی کارڈ کھیلا۔ مثلا عمران خان ان رہنماؤں میں سے ہیں جن کے خلاف مختلف وقتوں میں مذہبی کارڈ بہت سفاکیت سے کھیلا گیا ہے۔ مگر 2018 کے انتخابات آئے تو ان کی طرف سے اے ٹی ایم کارڈ کے بعد جس کارڈ کا بےدریغ استعمال ہوا، وہ مذہب کارڈ تھا۔
نواز شریف نے نوے کی دہائی میں بےنظیر کا گھیراو کرنے کے لیے ایک کارڈ مذہب کا بھی کھیلا تھا۔ سال 2013 میں میاں صاحب وزیر اعظم بنے تو خوفناک سائے کی طرح اسی کارڈ نے ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ اسی بنیاد پر میاں صاحب کے خلاف مذہبی تحریکیں اٹھائی گئیں، مزارات اور آستانوں پر لگے لاوڈ سپیکرز کو مصری کی دھونی دی گئی۔ جامعہ اشرفیہ لاہور میں میاں صاحب ایک عاشقِ رسول کے جوتے کا نشانہ بنے۔ ایسے ہی ایک مرد مومن نے وفاقی وزیر خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی۔ ایک جلسے کے دوران ایک اور وفاقی وزیر احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ فیض آباد پر دھرنا بیٹھا اور ہنسی خوشی وزیر قانون کا استعفی لے کر چلتا بنا۔ عمران خان نے پاکپتن سے گولڑہ تک ہر آستانے پر جا کر دہائی دی کہ میاں نواز شریف نے بیرونی دباؤ کے تحت آئین میں کچھ ایسی تبدیلی کرنے کی کوشش کی ہے جس کا فائدہ قادیانیوں کو ہونا تھا۔ انہوں نے ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ حکومت کے خلاف اس معاملے کی تحقیق ہونی چاہیے۔ انتخابات کا موسم گزرگیا تو مسلم لیگ نے سارا واجب الادا قرض اسی کارڈ کے ذریعے چکانا شروع کیا۔ باقی لیگی رہنماؤں کی یا کارکنوں کی کیا بات کریں، تلخ تجربے سے گزرے ہوئے احسن اقبال بھی قومی اسمبلی کے فلور پر عمران خان کے خلاف مذہب کارڈ لہراتے ہوئے نظر آئے۔ مریم نواز کے شوہر نامدار کو اس عرصے میں یہ فکر لاحق رہی کہ قادیانی ملک میں پھل پھول رہے ہیں۔ یہی نہیں، کل کلاں کو ممتاز قادری کے مزار پر مجاوری کی اسامی مشتہر کی گئی تو کیپٹن صفدر کی سی وی کو سب درخواستوں پر ایک طرح کی فضیلت حاصل ہوگی۔ بجائے اس کے کہ کوئی کیپٹن کے منہ پر ہاتھ رکھتا، ان کی ناجائز خواہشوں کی ناحق حوصلہ افزائی کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ملک کی آئینی تاریخ میں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ بھی دراصل مذہبی حوالے ہی ہیں۔ قانون توہین مذہب کی طرح ان شقوں کا استعمال بھی سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں وہ سارے دانشور اور سیاست دان توہین مذہب کے مرتکب تھے جو ظلِ الہی کے طرف دار نہیں تھے۔ جو طرف دار تھے انہیں سات بوتلیں اور آٹھ زلفیں معاف تھیں۔ جنرل مشرف کا روشن زمانہ آیا تو انتخابی امیدواروں کے دین ایمان باسٹھ تریسٹھ پر رکھ کر پرکھے جانے لگے۔ جو شاہ کے مصاحب ہوتے ان کا ایمان کامل قرار دے دیا جاتا۔ جو مصاحب نہ ہوتے انہیں چھ کلمے اور چار قل سنانے کو کہہ دیا جاتا۔ بدقسمتی سے کوئی سنا دیتا تو اسے دعائے قنوت اور عید کی تکبیروں میں الجھا دیا جاتا تھا۔ پڑھت میں جہاں تھوڑی سی اٹکن آتی وہیں محتسب امیدوار کو مقابلے سے بارہ پتھر باہر کر دیتا۔
جمہوریت کا عہد ناپائیدار شروع ہوا تو باسٹھ تریسٹھ ایک بڑا سوال تھا۔ عمران خان تب ان دو شقوں کے خلاف بہت مدلل گفتگو کرتے تھے۔ فرماتے تھے ان شقوں کا استعمال خالص سیاسی اور انتقامی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے سامنے باسٹھ تریسٹھ کے خاتمے کا موقع آیا تو ان کی گریز پائیاں دیکھنے والی تھیں۔ تب عمران خان کی گردن میں باسٹھ تریسٹھ کا طوق پڑا تھا اور سیاسی رہبر سمجھتے تھے کہ اب خطرے کی کوئی ایسی بات نہیں۔ ابھی 2018 سے پہلے جب قیامت کے پانامے آنے لگے تو زبانیں الٹی ہوگئیں۔ اب مسلم لیگ اور پی پی کے اکابر ہتھیلیاں ملتے ہیں کہ انتقام کا یہ کھونٹا ہم نے اکھاڑ کیوں نہیں پھینکا۔ دوسری طرف عمران خان کندھے اچکا کر فرمانے لگے ہیں، دنیا کے کس ملک میں ہوتا ہے کہ ایک شخص صادق و امین نہ ہو اور اسے حکمرانی کا حق دے دیا جائے؟
تازہ قصہ سینیٹ کے 14 ارکان کے ضمیر کا ہے۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ یہ ضمیر بکے ہیں اور حکومت سمجھتی ہے کہ یہ جاگے ہیں۔ بکنے اور جاگنے کا یہ فرق کسی بھی جماعت کی زمانہ حال کی پوزیشن پر منحصر ہوتا ہے۔ جو ضمیر کل عمران خان کے حق میں نہیں تھے وہ بکے ہوئے تھے۔ جو آج ان کے حق میں ہیں وہ جاگے ہوئے ہیں۔ یہی چئیرمین سینیٹ کل جب پالکی میں اتر رہے تھے تو ہر طرف جیوے بھٹو ہو رہی تھی۔ آج قرعہ فال جب اسی چئیرمین کے نام نکلا تو ’ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘ جیسا پرانا آموختہ دوہرایا جا رہا ہے۔
سیاست کا طالب علم سوچتا ہے کہ اسلام، احتساب، باسٹھ تریسٹھ اور ضمیر والے جتنے حربے ہیں کیا وہ ہمیشہ یوں ہی شکلوں کی تبدیلی کے ساتھ دوہرائے جاتے رہیں گے؟ کیا کبھی ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہم سیاست میں کھینچی گئی ان خونریز لکیروں کو مٹاسکیں؟ آئیڈیل بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے طور پر عہد کرلیں ہم کوئلے کی دلالی میں اپنے ہاتھ کالے نہیں کریں گے۔ عملی بات البتہ کچھ اور ہے مگر پہلے سن لیجیے کہ معاملہ دراصل کیا ہے؟
معاملہ یہ ہے کہ نوے کی دہائی میں جب یہ سارے کارڈ میاں صاحب کھیل رہے تھے، پھر جب یہ کارڈ ننانوے کے بعد الیکشن کمیشن میں اپوزیشن کے خلاف کھیلے گئے، پھر جب 13 اور 18 کے بیچ یہی کارڈ نواز شریف کے خلاف کھیلے گئے، یہی کارڈ جب پھر کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی کے خلاف لہرائے گئے تو یہ سب دراصل ریاست کے کارڈ تھے۔ نوے کے چھانگا مانگا میں جاگتے ضمیروں کودھیمے سروں والی لوریاں سنا کر ریاست ہی سلاتی تھی اور آج بھی گیارہ ہزار والٹ کا جھٹکا دے کرضمیروں کو ریاست ہی جگاتی ہے۔ عملی بات یہ ہے کہ بلند آواز میں سب سے پہلے ریاست نے آواز لگانی ہوگی کہ میاں بس اب بہت ہوگیا!