ارجن ایک نجی کمپنی میں اکاؤنٹنٹ ہیں۔ انھوں نے سن رکھا ہے کہ آئی ایم ایف غریب ممالک کی مدد کرتا ہے۔
لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ آئی ایم ایف اس کے بدلے مقروض ممالک سے کیا وصول کرتا ہے۔
اس کے احداف کیا ہیں اور یہ پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف مفت میں کام کرتا ہے اور دنیا کے 150 ممالک میں اس کے ملازمین کو تنخواہیں ممبر ممالک سے لے کر ادا کرتا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے مزید جاننے کی کوشش کی ہے۔
یٰسین انور پاکستان کے سابق گونر سٹیٹ بینک ہیں اور آج کل ورلڈ بینک کے ممبر ادارے انٹرنیشل فنانشل کوآپریشن کے سینیئر ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ 2014 سے 2016 کا آئی ایم ایف پروگرام انہی کی سربراہی میں ہوا تھا۔ وہ آئی ایم ایف کے نظام پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ نے 1944 میں آئی ایم ایف ادارے کی بنیاد رکھی تھی جس کا ابتدائی مقصد یورپی ممالک کی معیشت کی بحالی تھا۔‘
’اس کے بعد دائرہ کار وسیع ہوا تو اس کا مقصد معاشی عدم استحکام کے شکار ممالک کی مدد کرنا ہو گیا چاہے ان کا تعلق دنیا کے کسی خطے سے بھی ہو۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ممبر ممالک کی تعداد 190 ہے اور آئی ایم ایف کے پاس ادھار دینے کے لیے ہر وقت تقریبا ایک ٹریلین ڈالرز کا بجٹ موجود ہوتا ہے۔‘
’آئی ایم ایف کمرشل بینک نہیں ہے لیکن اس کا قرض ادا نہ کرنے والا ملک ڈیفالٹ کر جاتا ہے۔ اس کا قرض نہ تو رول اوور ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی ادائیگی معطل ہو سکتی ہے۔ البتہ قرض لینے والے ممالک کو گریس پیریڈ دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کو ملا ہوا ہے۔‘
پاکستان نے 2014 سے 2016 میں تقریباً 6.7 ارب ڈالرز کا جو پروگرام مکمل کیا تھا اس کا گریس پیرڈ اگلے سال ختم ہو جائے گا اور پاکستان کو ہر سال تقریبا ایک ارب ڈالرز آئی ایم ایف کو قرض بمعہ سود واپس کرنا ہوگا۔ 2014 میں آئی ایم ایف قرض کی شرح تقریبا دو فیصد تھی۔ جبکہ 2019 میں ملنے والے قرض کی شرح سود تقریباً 3.2 فیصد ہے۔ یہ پروگرام ختم ہونے کے بعد پاکستان کو نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہو گا اور اس کی شرح سود ماضی کی نسبت زیادہ ہو گی۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کا مقصد ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ملکوں کی مدد کرنا ہے جبکہ ورلڈ بینک اور ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں ترقیاتی منصوبے لگانے کے لیے فنڈز مہیا کرنا ہے۔ تینوں ادارے اقوام متحدہ کے قائم کیے ہوئے ہیں لیکن یہ ادارے مفت میں قرض نہیں دیتے۔‘
’ورلڈ بینک اور ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کم شروع سود پر قرض دیتے ہیں جب کہ آئی ایم ایف کی شرح سود دونوں بینکوں سے زیادہ اور کمرشل بینکوں سے کم ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف اپنے منافع میں سے ممبر ممالک کو حصہ نہیں دیتا۔ بلکہ منافع کی رقم سے محفوظ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کے ایس او پیز کے مطابق انتہائی کم آمدن والے ممالک کو زیرو ریٹ پر بھی قرض دیے جا سکتے ہیں لیکن وہ چھوٹے قرض ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ کمزور معاشی ممالک کی مدد کرنا ہے۔ اس کے پاس اپنا کوئی فنڈ نہیں ہوتا۔ سب کچھ ڈونر ممالک نے دیا ہوتا ہے اور امریکہ کا شئیر سب سے زیادہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہر معیشت ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کا مقصد قرض دینے سے زیادہ معیشت ٹھیک کرنے کے لیے اصلاحات نافذ کروانا ہے۔ جب تمام بینکس اور ادارے قرض دینے سے معذرت کر لیتے ہیں تو آئی ایم ایف قرض دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ آمدن بڑھانے کے لیے اقدامات بھی کرواتا ہے۔ وہ قرض اسی صورت میں دیتا ہے جب کوئی ملک اسے واپس کرنے کی صلاحیت رکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ضرورت مند ممالک خود آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کسی کو بلاتا نہیں ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے آئی ایم ایف ایک نعمت ہے۔ اس کی وجہ سے ملکی آمدن بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرح سود مستقل نہیں ہے۔ یہ ہر ملک کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن جو شرح سود طے ہو جائے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عمومی طور پر تمام بڑے قرضوں اور شرح سود کا فیصلہ ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کرتے ہیں۔ لیکن کچھ قرض ایسے بھی ہیں جن کے لیے ایگزیکٹو بورڈ کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
سابق وزیر خزانہ اور ورلڈ بینک کے سابق ایڈوائزر ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کا قرض بلا سود نہیں ہوتا۔ شرح سود کمرشل بینکوں سے کم اور ملٹی لیٹریل بینکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف ڈونر ممالک سے فنڈز لیتا ہے اور غریب ممبر ممالک کو قرض دیتا ہے۔ اس سے حاصل شدہ آمدن ادارے کے اخراجات پوری کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ آپ اسے ایک این جی او بھی کہہ سکتے ہیں جس کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ مدد کرنا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر این جی اوز بھی اتنے ہی شرح سود پر قرض دیتی ہیں جس سے صرف ادارے کے اخراجات پورے ہو سکیں۔‘
حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ آئی ایم ایف ادائیگیوں میں توازن کو برقرار نہ رکھنے والے ممالک کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اس کے آمدن کے ذرائع شرح سود کے علاوہ سرمایہ کاری بھی ہیں۔ وہ صرف اتنا منافع کماتی ہے جس سے ادارے کے اخراجات پورے ہو سکیں۔