چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے صدر عارف علوی کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ آئین پاکستان الیکشن کمیشن کو اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار نہیں دیتا، بلکہ یہ صدر مملکت اور صوبائی گورنر کی صوابدید ہے۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے آٹھ فروری کو الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو لکھے گئے خط میں انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا کہا تھا۔
صدر عارف علوی نے الیکشن کمشنر کو انتخابات کے انعقاد سے متعلق مزید ایک خط گذشتہ روز لکھا تھا۔
صدر کے خط میں کہا گیا: ’آئین (انتخابات میں) تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کریں۔ 2017ء کے الیکشن کمیشن ایکٹ کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کیا جائے اور الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی شیڈول جاری کرے۔‘
گورنر پنجاب کی پولنگ کی تاریخ دینے سے معذرت
صدر مملکت کے خطوط کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر نے اپنے خط میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 218 تین کے تحت انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا آئینی فرض ہے۔
’کمیشن نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے گورنرز سے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے رواں سال 24 جنوری کو رجوع کیا تھا اور 29 جنوری کو اس حوالے سے یاد دہانی بھی کروائی۔‘
گورنر پنجاب نے پولنگ کی تاریخ کا اعلان کرنے سے معذرت کی ہے اور الیکشن کمیشن کو مطلع کیا کہ وہ (گورنر پنجاب) اس سلسلے میں قانونی فورم سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
الیکشن کمشنر کے خط میں آئین کے آرٹیکل 48 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ صدر کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں صدر ہی کو الیکشن کی تاریخ دینا ہوتی ہے، جبکہ آرٹیکل 105 کے تحت گورنر کے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی صورت میں گورنر ہی صوبے میں الیکشن کی تاریخ دینے اور نگران کابینہ مقرر کرنے کے مجاز ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف الیکشن کمشنر نے صدر کے لکھے گئے خط پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔
’خط میں بہتر الفاظ کا چناؤ کیا جا سکتا تھا، کسی بھی آئینی ادارے کو مخاطب کرنے کے لیے بہتر الفاظ کا چناؤ ضروری ہے۔‘
صدر عارف علوی کا دوسرا خط
گذشتہ روز لکھے گئے خط میں صدر عارف علوہ نے چیف الیکشن کمشنر کو کہا کہ ان کے آٹھ فروری کے خط کے بعد سے اس معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور سپریم کورٹ کے حالیہ مشاہدات جیسی کچھ اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
صدر مملکت نے اپنے پہلے خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جواب موصول نہ ہونے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’وہ بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ کمیشن اپنے آئینی فرائض کا احساس کرے گا۔ اس اہم معاملے پر الیکشن کمیشن کے افسوس ناک رویے سے انتہائی مایوسی ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان کی آئین کے تحفظ اور دفاع سے متعلق آئینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو 20 فروری 2023 کو ایوان صدر میں الیکشن پر مشاورت کی غرض سے ہنگامی ملاقات کی دعوت دی تھی۔
الیکشن کمیشنر نے جوابی خط میں صدر کی 20 فروری کو طلب کیے گئے اجلاس میں شرکت کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اراکین اور اعلی حکام ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے۔