محمد سلیمان* کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ملاکنڈ سے ہے اور گذشتہ کئی سالوں سے روزگار کی سلسلے میں برطانیہ جانا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔
کچھ عرصہ پہلے ان کا رابطہ کچھ ایجنٹس کے ساتھ ہوا اور انہوں نے اس نوجوان کو غیر قانونی طریقے سے برطانیہ لے کر جانے کا وعدہ کیا، اور اس مد میں ان سے27 لاکھ روپے ادا کرنے کا بتایا۔
ابتدا میں ایجنٹ کی جانب سے 13 لاکھ اور باقی رقم لندن پہنچنے کے بعد ادا کرنے کا بتایا گیا لیکن برطانیہ جانے سے پہلے نوجوان کو دبئی بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
سلیمان نے بتایا، ’پہلے مجھے بتایا گیا کہ آپ کو دبئی جانا ہوگا اور وہاں پر ہمارا ساتھی آپ کو پک کرے گا اور رہائش مہیا کرے گا اور وہیں سے برطانیہ جانے کا پلان بنایا جائے گا۔‘
سلیمان کو بتایا گیا کہ وہ دبئی پہنچ کر ایئرپورٹ پر ایک نمبر پر کال کریں گے تو ان کا ایک بندہ لینے آئے گا۔
ٹکٹ اور ویزے کا بندوبست کیا گیا اور سلیمان دبئی ایئرپورٹ پر لینڈ کر گئے لیکن چھ گھنٹے ایئرپورٹ پر گزارنے کے باوجود بھی کوئی بندہ ان کو لینے نہیں آیا۔
انہوں نے بتایا، ’میں نے چھ گھنٹے ایئرپورٹ پر انتظار کیا اور جو موبائل نمبر مجھے دیا گیا تھا، وہ بھی کوئی کال نہیں اٹھا رہا تھا اور آخر میں ایئرپورٹ پولیس نے مجھے بتایا کہ یا تو ایئرپورٹ سے باہر نکل جائیں یا ہم آپ کو اگلی فلائٹ سے واپس بھیج دیں گے۔‘
اس کے بعد سلیمان کے مطابق دبئی میں مقیم ایک رشتہ دار سے رابطہ کیا اور وہ ان کو پک کرنے آیا اور یوں ٹکٹ، ویزہ اور دبئی میں کچھ دن قیام پر پانچ لاکھ کا خرچہ ہوا حالانکہ انہیں ایجنٹ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ دبئی میں رہائش کا خرچہ ان کی طرف سے ہوگا۔
اس سارے فراڈ میں سلیمان کے مطابق ان کو تقریباً 18 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور آخر میں یہ سب دھوکہ نکلا، تو پیسے بھی ضائع ہوگئے اور برطانیہ جانے کا خواب بھی پورا نہیں ہوسکا۔
پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان سلیمان کی طرح ہیں، جو روزگار اور اچھی زندگی کا خواب دیکھ کر یورپ جانے کے چکر میں زندگیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ غیر قانونی طریقے سے یہ نوجوان باہر جاتے ہیں، اور زیادہ تر واقعات میں مختلف ممالک کے بارڈر پر ان کو گولی مار دی جاتی ہے، یس پھر اگر سمندری راستہ اختیار کرتے ہیں تو کشتی ڈوب بھی جاتی ہے۔
ابھی حالیہ ایک واقعے میں ایسا ہی ہوا کہ ایک کشتی جو اٹلی جا رہی تھی، ڈوبنے کی وجہ سے اس میں موجود 59 تارکین وطن میں دو درجن سے زائد پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
جان سے جانے والے افراد میں پاکستانی ہاکی ٹیم کی ممبر شاہدہ رضا بھی شامل تھیں جن کا تعلق کوئٹہ سے ہیں جبکہ باقی افراد میں پاکستان اور افغانستان کے تارکین وطن شامل تھے اور ایسے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے (آئی او ایم) کی ’مسنگ مائگرنٹس‘ رپورٹ کے مطابق رواں سال مجموعی طور 220 افراد وسطی بحیرہ روم کے راستے یا لاپتہ ہوگئے یا جان سے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد تارکین وطن تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر بیرون ملک جانے والے افراد غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک جانا چاہتے ہین تو کیا ایسا کوئی طریقہ کار ہے، جس کے تحت یہ افراد قانونی طریقے سے یورپ یا دیگر ممالک میں جا سکیں۔
تعلیمی ٹریک
قانی طریقے سے بیرون ممالک جانے کے لیے آسان ٹریک تعلیم کے ذریعے بھی ہے۔
منیب گل* کا تعلق پشاور سے ہے اور آج کل وہ لندن میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر برسرِ روزگار بھی ہیں اور برطانیہ جانے پر تین سال پہلے ان کا تقریباً 30 لاکھ روپے خرچہ آیا تھا۔
وہ کس طریقے سے گئے، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے برطانیہ آئے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پاکستان ہی سے ایک کنسلنٹنٹ کے ذریعے برطانیہ میں موجود کچھ یونیورسٹیوں میں اپلائی کیا اور ایک یونیورسٹی سے آفر مل گئی۔
انہوں نے بتایا، ’میں نے یونیورسٹی کی آدھی فیس پاکستان سے جبکہ باقی ماندہ برطانیہ جانے کے بعد قسطوں میں ادا کی اور اب ایک سال میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ جتنے گھنٹے مجھے کام کی اجازت ہے، وہ بھی کرتا ہوں۔‘
گل نے بتایا کہ تعلیم کے دوران بھی کام کرتے تھے اور فیس کا خرچہ بھی برداشت کرتے تھے اور گھر بھی پیسے بھیجتے تھے۔
’اب مجھے برطانیہ کی جانب سے دو سال مزید دیے گئے ہیں جس میں، میں اپنی لیے بہتر ملازمت تلاش کر سکتا ہوں اور اس کے بعد پانچ سال ملازمت کرنے کے بعد برطانیہ کی شہریت کے لیے بھی اپلائی کرنے کا اہل ہوجاؤں گا۔‘
اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی طریقے سے بیرون ممالک جانے والے افراد کو مشورہ دینے والی کمپینوں کے نمائندوں سے بات کی ہے تاکہ جان سکیں کہ ایسے کون سے طریقے ہیں جس کے تحت یہ افراد بیرون ممالک جا سکتے ہیں۔
محمد سلمان* پشاور میں ایس آئی یو کے نامی غیر سرکاری ادارے کے نمائندے ہیں جو گذشتہ 17 سالوں سے پاکستان سمیت مختلف ممالک میں برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کے داخلے کے لیے کونسلنگ فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ، ’تعلیمی ٹریک پر جانے سے پہلے ہم خواہش مند طلبہ سے بجٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں اور اگر کوئی طالب علم 40 سے 50 لاکھ روپے برداشت کر سکتا ہے تو وہ لندن، آسٹریلیا، امریکہ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکتا ہے۔‘
تاہم اگر کسی کا بجٹ کم ہو تو سلمان کے مطابق وہ سائپرس، سویڈن اور اس طرح کے کم ترقی یافتہ ممالک میں داخلہ لے سکتے ہیں۔
’داخلے کے بعد وہ ماسٹر کرنےکے دوران بھی اور اس کے بعد قانونی طور پر وقت دیا جاتا ہے، جس میں وہ ملازمت کر کے پیسے کما سکتے ہیں۔’
انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے طلبہ کے لیے وہ پھر جرمنی سمیت کچھ ایسے ممالک کا بھی مشورہ دیتے ہے جہاں پر تعلیمی فیس نہ ہونے کے برابر ہے یا سکالرشپ دی جاتی ہے اور صرف وہاں رہائش کا خرچہ برداشت کرنا ہوتا ہے، تو یہ بھی تعلیم کی غرض سے باہر جانے کے لیے ایک آسان راستہ ہے۔
ورک پرمٹ ٹریک
تاہم تعلیمی ٹریک ان نوجوانوں کو زیادہ فائدہ دے سکتا ہے، جنہوں نے پاکستان میں کم از کم بیچلر تک تعلیم حاصل کی ہو اور اس کے بعد وہ ایک سال کی ماسٹر ڈگری کے لیے کسی بھی یورپی یا دیگر ممالک میں اپلائی کر سکیں۔
تعلیمی ٹریک پر جانے کے لیے سب سے زیادہ خرچہ جو آتا ہے وہ فیس کی مد میں ہے۔ آج کل لندن میں یونیورسٹی کی فیس 40 سے50 لاکھ روپے ہے لیکن یہ فیس نوجوان جا کر وہاں کام کر کے واپس کما سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن اب اگر کوئی شخص تعلیم یافتہ نہیں ہے اور وہ یورپی ممالک جانا چاہتا ہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے، تو اس کے حوالے سے سلمان نے بتایا کہ یہ بہت مشکل سوال ہے کیونکہ کم تعلیم یافتہ افراد کو ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کیونکہ ان کو اگر کام کے لیے کسی کی ضرورت ہے تو وہ تعلیم یافتہ افراد ہی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’کم تعلیم یافتہ افراد کا یورپ میں جانا یا لندن اور امریکہ میں جانا اور وہاں ملازمت کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے، لیکن ایسے افراد مڈل ایسٹ کے ممالک میں جاسکتے ہیں جہاں پر تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہاں پر وہ خوب پیسے بھی کما سکتے ہیں جس میں سعودی عرب، قطر، کویت، ترکی سمیت دیگر ممالک شامل ہے۔‘
سلمان کے مطابق کم تعلیم یافتہ اور بغیر تعلیم کے افراد میں ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات یہی لوگ ویزٹ ویزا پر جاتے ہیں لیکن وہاں پر اسائلم کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو اپنی ملک میں خطرہ ہے جبکہ وہ اسائلم کا ویزا اپلائی کرنے کے دوران نہیں بتاتے۔
انہوں نے بتایا، ’اسی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک ایسے افراد کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے کیونکہ برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کو غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ سنگین ہے اور اب اس کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہے۔‘
سکلڈ ورکر ویزہ
اب اگر کوئی شخص تعلیم یافتہ بھی ہے اور انہوں نے پاکستان میں ملازمت بھی کی ہے، اور ان کا تجربہ بھی ہے تو ایسے افراد کو سکلڈ ورکر ویزا پر جانا چاہیے۔
اس حوالے سے سلمان نے بتایا کہ ایسے افراد کی آج کل کینیڈا میں بہت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جو اوپن امیگریشن ہے اور تجربہ کار افراد اس قسم کے ویزا کے لیے اپلائی کر کے کینیڈا جا سکتے ہیں۔
اسی طرح سلمان کے مطابق ایسا بھی ممکن ہے کہ مثال کے طور پر کسی کا منیجیمنٹ میں تجربہ ہے اور کسی شخص نے لندن کی کسی کمپنی میں اپلائی کیا اور ان کو ملازمت کی آفر آگئی تو وہ لندن کی کپمنی کی طرف سے سپانسرشپ حاصل کر کے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔
سلمان نے بتایا، ’سکلڈ ورکر کا سکوپ لندن میں اتنا زیادہ نہیں ہے بلکہ کینیڈا اور کچھ دیگر ممالک میں موجود ہیں، جہاں پر تجربہ کار افراد اپلائی کر کے جا سکتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ سلمان کے مطابق کوئی بھی شخص اگر باقاعدہ ویزا لے کر کسی بھی ملک نہیں جارہے، تو یہ ایک غیر قانونی عمل ہے اور غیر قانونی طریقے سے کسی بھی ملک میں جانا اپنی جان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے بتایا، ’ہمیشہ کوشش کرنا چاہیے کہ رجسٹرڈ اور تجربہ کار کنسلنٹس سے مشورہ لے کر بیرون ملک کسی بھی ویزا کے لیے اپلائی کرنا چاہیے اور ایجنٹوں کی چھانسے میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ غیر قانونی طور پر کسی ملک کا بارڈر کراس کرنے میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔‘
(اس خبر میں شناخت نہ ظاہر کرنے کے لیے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں)