انڈیا کی ویمنز پریمیئر لیگ (ڈبلیو پی ایل) نے پہلے ایڈیشن کے شروع ہونے سے پہلے ہی کروڑوں ڈالر کما لیے ہیں جسے ماہرین نے خواتین کے لیے گیم چینجر قرار دیا ہے۔
خواتین کے ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی پانچ پہلی فرنچائزز تقریباً 20 کروڑ ڈالر میں فروخت ہوئیں اور یہ رقم 2008 میں شروع ہونے والے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی آٹھ ابتدائی ٹیموں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈبلیو پی ایل کے پہلے پانچ سیزن کے لیے میڈیا حقوق کو ملا کر انڈین کرکٹ بورڈ کو تقریباً 70 کروڑ ڈالر سے مالا مال ہوچکا ہے اور اس طرح یہ امریکی باسکٹ بال کے بعد عالمی سطح پر خواتین کے کھیلوں کا دوسرا سب سے مہنگا ایونٹ بن چکا ہے۔
ڈیلوئٹ سپورٹس بزنس گروپ کے جیمز سیویج نے اے ایف پی کو بتایا‘ یہ خواتین کے کھیلوں میں سرمایہ کاری کی ایک بے مثال رقم ہے۔ سرمایہ کاری کی یہ سطح اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ اس میں ترقی کی بہت بڑی صلاحیت ہے۔‘
بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) ڈبلیو پی ایل کے ذریعے خواتین کے کھیل کو عالمی سطح پر ناظرین، میڈیا کوریج، ٹی وی حقوق اور بڑی سپانسرشپ کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔
آسٹریلیا اور انڈیا کے درمیان میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں 2020 خواتین کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے فائنل کو 86 ہزار سے زیادہ شائقین نے میدان میں دیکھا جو خواتین کے کرکٹ میچ کے لیے اب تک کا سب سے زیادہ ریکارڈ ہے۔
اور ٹیلی ویژن پر لوگوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی منتظمین کے لیے میڈیا حقوق کے حوالے آمدنی کو بڑھانے کا اہم ذریعہ بن چکی ہے جو خواتین کے کھیلوں میں نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔
امریکی کھیلوں کی مارکیٹنگ ایجنسی واسرمین سے وابستہ تھائر لاویل نے کہا: ’یہ تصدیق ہے کہ خواتین کے کھیل اس شعبے کی معیشت کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مارکیٹرز کو واقعی اس بات پر توجہ دینا شروع کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ڈبلیو پی ایل میں عالمی دلچسپی کی نشاندہی کرتے ہوئے برطانوی نشریاتی ادارے سکائی سپورٹس نے کہا کہ وہ ان میچز کو براہ راست نشر کرے گا۔
ٹورنامنٹ کا فائنل 26 مارچ کو کھیلا جانا ہے اور تمام کھیل ممبئی میں شیڈول ہیں۔
بی سی سی آئی نے پچھلے سال آئی پی ایل کے پانچ سیزن کے میڈیا حقوق 6.2 ارب ڈالر میں فروخت کیے تھے اور انہیں امید ہے کہ خواتین کا ایونٹ بھی اسی طرح منافع بخش ثابت ہو گا۔
بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ڈبلیو پی ایل کے ابتدائی ردعمل نے یقینی طور پر لیگ کی خواتین کے ملکی کھیلوں کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ بننے کی صلاحیت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ خواتین کے دوسرے کھیلوں کے لیے بھی مثال بنے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈبلیو پی ایل کی نیلامی میں بھی لاکھوں ڈالرز سے کھلاڑیوں کو خریدا گیا ہے جس میں انڈیا کی سمرتی مندھانا سرفہرست ہیں جنہیں چار لاکھ 10 ہزار ڈالر ادا کیے جائیں گے۔
آسٹریلیا کی ایش گارڈنر اور انگلینڈ کی نیٹ سکیور برنٹ کو بھی تین لاکھ 87,000 ڈالر میں خریدا گیا ہے۔
کچھ کھلاڑی تین ہفتے کے اس ٹورنامنٹ کے لیے عام طور پر پورے سال کے مقابلے میں زیادہ کمائیں گی۔
ڈیلوئٹ کے 2021 میں کیے گئے ایک مطالعے سے پتا چلا کہ مردوں اور خواتین کے کھیلوں کی آمدنی کے درمیان صنفی فرق کم ہونا شروع ہو رہا ہے جب کہ خواتین کے کھیلوں کے لیے آمدنی کے تین اہم ذرائع یعنی ٹی وی حقوق، تقریب کے دن حاضری اور سپانسرشپ سب ہی بڑھ رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سپورٹس کی پوری صنعت کو خواتین کے کھیلوں کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
سرمایہ کاروں نے پہلے ہی خواتین کی لیگ میں بھاری رقوم لگا دی ہیں، اس میں انڈین بزنس مین گوتم اڈانی بھی شامل ہیں لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ ٹورنامنٹ کن سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے اور کیا یہ منافع بخش ثابت ہوگا۔