اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے ’اداروں میں بغاوت پر اکسانے‘ کے کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 22 مارچ کی تاریخ مقرر کی ہے۔
سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے ہفتے کو مذکورہ کیس کی سماعت کی۔
مقدمے کے نامزد ملزم شہباز گل اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے ڈائیریکٹر نیوز عماد یوسف عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں شہباز گل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ ذاتی طور پر عدالت کے سامنے چند گزارشات رکھنا چاہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مقدمے میں ’شریک ملزم صحافی ارشد شریف کو زبردستی ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور بعد میں انہیں ٹریس کرنے کی کوشش کی گئی۔‘
شہباز گل کا کہنا تھا کہ ’ارشد شریف کینیا پہنچے تو انہیں وہاں قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کی تفتیش کے لیے تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی جس نے اس مقدمے کے مدعی کو بھی اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا۔ اس نوعیت کی ایک درخواست کراچی میں بھی درج کی گئی اور وہاں تفتیشی نے بتایا کہ انہیں کسی نے مقدمہ درج کرنے اور ہمیں نامزد کرنے کا کہا۔ یہی مقدمات ارشد شریف کے ملک چھوڑنے کی وجہ بنے۔‘
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھ پر بھی وہی بات کرنے کا الزام ہے جو خواجہ آصف نے کی۔‘
شہباز گل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ارشد شریف کے قتل کا سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے تفتیش کے لیے خصوصی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی جس نے عدالت میں اپنا جواب بھی جمع کروایا اور اب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے جس نے دیکھنا ہے کہ ’کیا یہ مقدمہ درست ہے یا موٹیویٹڈ۔‘
انہوں نے عدالت عالیہ کا فیصلہ آنے تک سماعت موخر کرنے کی استدعا کی۔
پی ٹی آئی رہنما نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک کا وزیر دفاع کہہ رہا ہے کہ فیض حمید کو غلط احکامات نہیں ماننے چاہیے تھے۔ مجھ پر مقدمہ بنایا گیا لیکن ان کے اس بیان کو 48 گھنٹے گزر گئے کسی نے مقدمہ نہیں بنایا۔ مجھ پر بھی وہی بات کرنے کا الزام ہے جو خواجہ آصف نے کی۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’مجھے اٹھا کر تشدد پہلے کیا گیا اور مقدمہ بعد میں درج کیا گیا۔ شہباز گل نے دوبارہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے کہ عدالت اس ہفتے کیس سنتے ہوئے مقدمہ خارج کر دے۔‘
انہوں نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن انہیں سزا دلوانے کے لیے فرد جرم عائد کروا رہی ہے۔
سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کے آغاز میں واضح کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس عدالت کو ٹرائل سے نہیں روکا اور ’عدالت مفروضے کی بنیاد پر مقدمے کا ٹرائل نہیں روک سکتی۔ جتنی وجوہات انہوں نے بتائیں ہیں وہ درست نہیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ارشد شریف کے کیس میں ملک میں کوئی وکیل وکالت کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ان کی عمر قید یا سزائے موت کی جانب قدم بڑھائے جا رہے ہیں۔
سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ مقدمہ ارشد شریف نہیں بلکہ شہباز گل سے متعلق ہے جس پر پی ٹی آئی رہنما نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر تعلق نہیں تو ارشد شریف کینیا میں خود قتل ہونے گئے تھے؟‘
شہباز گل کا کہنا تھا کہ ’ارشد شریف نے صدر اور چیف جسٹس پاکستان کو خطوط لکھے، انہیں یہ معلوم تھا کہ ان کے ساتھ یہ ہونے والا ہے۔ ارشد شریف کے ملک چھوڑنے سے پہلے ان کا نام پی آئی این ایل میں ڈالا گیا۔ حکومت نے ارشد شریف کو تمغہ حسن کارکردگی دیا تھا، پی آئی این ایل میں نام ڈالنا کون سا تمغہ حسن کارکردگی تھا؟‘
سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل کیس کو التوا کا شکار کرنا چاہ رہے ہیں۔ جس پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ’وکیل میرے مقدمے سے الگ ہو گئے ہیں، ان مقدمات میں وکیل ملنا بھی مشکل کام ہے۔ ارشد شریف کے خاندان کو بھی وکیل نہیں مل رہا مجھے بہت مشکل کا سامنا ہے۔‘
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد شہباز گل کی فرد جرم موخر کرنے کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے شہباز گل پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 22 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی۔