شہباز گل ضمانت مقدمہ: چیف جسٹس کہتے ہیں فوج اتنی کمزور نہیں

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے: ’شہباز گل نے جو باتیں کیں وہ غیر مناسب تھیں، لاپرواہی پر مبنی بیان تھا لیکن ہماری افواج اتنی کمزور نہیں کہ کسی کے لاپرواہ بیان سے متاثر ہوجائیں۔‘

10 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیشی کے موقعے پر لی گئی پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی تصویر (فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعمرات کو بغاوت کے ایک مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

جمعرات کے روز شہباز گل کی درخواست ضمانت پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے پانچ لاکھ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے عوض 36 دن سے زیر حراست شہباز گل کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے: ’شہباز گل نے جو باتیں کیں وہ غیر مناسب تھیں، لاپرواہی پر مبنی بیان تھا لیکن ہماری افواج اتنی کمزور نہیں کہ کسی کے لاپرواہ بیان سے متاثر ہوجائیں۔‘

شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کی درخواست ضمانت ایڈیشنل سیشن جج نے مسترد کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مقدمے میں 14 دفعات لگائی گئی ہیں۔ شہباز گل کیس خارج کرنے کی درخواست بھی زیر التوا ہے۔ آج ضمانت کی درخواست کے ساتھ مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مقرر نہیں کی گئی ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ بدنیتی کی بنیاد پر سیاسی بنیادوں پر یہ کیس بنایا گیا۔ اس کیس میں تفتیش مکمل ہو چکی ہے پورا کیس ایک بیان کے اردگرد گھومتا ہے۔

’تفتیش مکمل ہے، برآمدگی اور کوئی نہیں کرنی۔‘

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ شہباز گل کے خلاف مقدمے کے اندراج میں بہت سارے سقم موجود ہیں۔ شہباز گل کی ایک درخواست ضمانت ٹرائل کورٹ سے خارج کردی گئی ہے۔ پولیس کی جانب سے بغیر اتھارٹی کے مقدمے کا اندراج غیر قانونی ہے۔

جب وکیل نے یہ کہا کہ درخواست گزار سابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی، یونیورسٹی پروفیسر اور پی ٹی آئی ترجمان رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے انہیں سیاسی بات چیت سے روک دیا اور کہا: ’آپ کیس پر آ جائیں اور پہلے ایف آئی آر پڑھ لیں۔‘

ایف آئی آر سننے کے بعد چیف جسٹس نے شہباز گل کے وکیل سے استفسار کیا: ’کیا ایف آئی آر میں لکھی ہوئی باتیں شہباز گل نے کہی تھیں؟ کیا آپ مسلح فورسز کو سیاست میں ملوث کرنے کے بیان کی وضاحت پیش کر سکتے ہیں؟‘

شہباز گل کے وکیل نے جواب دیا کہ شہباز گل کے بیان سے اتنا انتشار نہیں پھیلا ’جتنا مدعی کی نمائندگی سے انتشار پھیلا۔‘

سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کی گفتگو کا کچھ حصہ نکال کر سیاق و سباق سے الگ کر دیا گیا۔ شہباز گل نے کہیں بھی فوج کی تضحیک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں مسلم لیگ ن کی سینیئر قیادت کے نام لئے تھے۔ مقدمے میں بدنیتی سے اور منصوبے کے تحت یہ تمام باتیں نکال دی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’سیاسی جماعتوں نے نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا، اس تقریر کو دیکھ لیں۔‘

شہباز گل کے وکیل نے ایمان مزاری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ کے پاس ہی وہ کیس آیا اور آپ نے خارج کیا۔ جبکہ مدعی اس کیس میں متاثرہ فریق بھی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا: ’اگر ہم سوشل میڈیا پر جاتے ہیں تو آدھا پاکستان جیل کے اندر ہو گا۔‘

پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جب تک جیلوں میں نہیں ڈالا جائے گا یہ سب ختم نہیں ہو سکتا۔

ان کے بقول: ’شہباز گل نے جان بوجھ کر ٹی وی پر بیٹھ کر یہ باتیں کیں شہباز گل نے جان بوجھ کر اشتعال دلانے کی کوشش کی۔‘

پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز گل نے اصل سمارٹ فون دیا نہ ہی ڈرائیور ملا۔ شہباز گل کے سیٹلائٹ فون سے اہم معلومات ملی ہیں، شہباز گل کے سیٹلائٹ فون کی حتمی رپورٹ کا انتظار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ بغاوت کے لیے فورسز کے کسی بندے سے شہباز گل نے رابطہ کیا ہو؟ جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ تفتیش میں ایسا کوئی رابطہ سامنے نہیں آیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر تو یہ مزید انکوائری کا کیس ہے۔

’جب تک ٹھوس مواد نہ ہو کسی کو ضمانت سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ کل کو وہی شخص بے قصور نکلا تو اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ آپ کارروائی ضرور کریں لیکن ٹھوس مواد تو سامنے لائیں۔ آپ بتائیں کیوں کس بنیاد پر یہ عدالت انہیں ضمانت نہ دے۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا اس عدالت کا ضمانت کے معاملے پر ایک بڑا متواتر موقف رہا ہے۔

انہوں نے کہ اگر دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرے تو ٹرائل کورٹ کو درخواست دی جا سکتی ہے۔‘

کیس کا پس منظر

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی گرفتاری آٹھ اگست کو نجی نیوز چینل اے آر وائی پر ملکی اداروں کے خلاف ایک بیان کے بعد عمل میں آئی تھی۔

شہباز گل کے اس بیان کے بعد نہ صرف پیمرا نے اے آر وائی کی نشریات بند کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے خلاف بھی اسلام آباد میں بغاوت کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

شہباز گل کے خلاف ایسا ہی ایک مقدمہ کراچی میں بھی سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی شہباز گل پر ملک کے اداروں کے خلاف بیان پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔ 25 اگست کو تھانہ چھاؤنی میں درج کیا گیا مقدمہ  ڈی آئی خان کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر منیر احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

اسے سے قبل ان کی صحت کے حوالے اور میڈیا سے گفتگو کے دوران ان کے جنسی تشدد کے دعوے بھی خاصے زیرِ بحث رہے۔ 

عمران خان كے چیف آف سٹاف كے ان پر مبینہ پولیس تشدد سے متعلق الزامات کے بعد وفاقی حکومت نے پچھلے ماہ کے دوران ہی پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے تین ڈاکٹروں پر میڈیکل بورڈ تشکیل دیا، جس کی 11 اگست کو آنے والی رپورٹ کے مطابق وہ طبی طور پر تندرست تھے اور ان کے جسم پر کوئی نشانات نہیں پائے گئے۔ 

تاہم شہباز گل نے عدالت کے روبرو الزام لگایا کہ ان کا کوئی طبی معائنہ نہیں کیا گیا اور استغاثہ کی جانب سے عدالت میں پیش کی جانے والی ان کی میڈیکل رپورٹ ’جھوٹی‘ ہے۔

23 اگست کو اسلام آباد پولیس کے مطابق شہباز گل کے پارلیمنٹ لاجز میں واقع زیراستعمال کمرے پر چھاپے کے دوران کمرے سے اسلحہ اور سیٹلائٹ فون برآمد کر لیا گیا ہے جبکہ شہباز گل نے اس اسلحے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست