پنجاب میں انتخابات کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی صوبے میں سیاسی جماعتیں الیکشن سے متعلق سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف دکھائی دے رہی ہیں۔ خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت جنوبی پنجاب اور سینٹرل پنجاب میں زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کے لیے ’ہیوی ویٹ‘ امیدواروں کو میدان میں اتارنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔
اگرچہ پنجاب اور لاہور کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتے تھے، تاہم گذشتہ کئی دہائیوں سے مرکزی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو بیشتر حلقوں میں تیسری پوزیشن پر آنا بھی دشوار ہوتا رہا ہے۔
موجودہ ملکی سیاسی منظر نامے پر پیپلز پارٹی قیادت ایک بار پھر پنجاب میں اتنی نشستیں لینے کی حکمت عملی بنا رہی ہے جو انہیں وفاق میں اقتدار اور پنجاب میں ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے لیے آرام دہ پوزیشن دلوا سکیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ کے مطابق، ’پیپلز پارٹی قیادت صوبے بھر میں تمام نشستوں پر فوکس کرنے کی بجائے ایسی سیٹوں پر امیدواروں کو اتارنا چاہتی ہے جہاں کامیابی کے چانسز زیادہ ہیں۔ اس کے لیے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری مختلف سیاسی شخصیات کو ساتھ ملا کر کامیابی یقینی بنانے میں مصروف ہیں۔‘
مسلم لیگ پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ ’پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مکمل انتخابی اتحاد تو ممکن نہیں البتہ بعض نشستوں پر شاید سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔‘
دوسری جانب تجزیہ کاروں کے خیال میں پیپلز پارٹی کی قیادت جس طرح پنجاب میں الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے اس سے یہ نہیں لگتا کہ وہ صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں۔ ’البتہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کو ٹارگٹ کر کے اپنے وفاق میں نمبرز بڑھانے، پنجاب کے ایوان میں مناسب نمائندگی ضرور حاصل کریں گے۔‘
پنجاب میں پیپلز پارٹی کا ہدف
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے سیکریٹری جنرل حسن مرتضیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کی قیادت کے حالیہ دوروں میں پنجاب سے مضبوط امیدوار ٹارگٹ نشستوں پر اتارنے اور انہیں کامیاب کرانے کے لیے جوڑ توڑ کر رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا ہدف پنجاب سے 30 قومی اسمبلی کی جبکہ 60 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے امیدوار کامیاب کروانا ہے۔‘
’تاکہ وفاق میں ہم اپنا وزیراعظم لاسکیں اور پنجاب میں ن لیگ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے میں کردار ادا کر سکیں۔ اس منصوبہ بندی کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف مضبوط امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے لیے شارٹ لسٹ کیا جا رہا ہے۔‘
حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ گذشتہ انتخابات کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کئی نشستوں پر ’بہتر‘ اور ’ہیوی ویٹ‘ امیدوار اتار کر اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکتی ہے۔ ’ہمارا مقابلہ پنجاب میں ساری جماعتوں سے ہو گا لیکن جو ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہو گا ہم بھی ان کے لیے راستہ بنائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو کئی نشستوں پر پہلے بھی کامیابی ملتی آئی ہے اور آئندہ بھی ملے گی۔ لہذا ہمارا سب سے زیادہ ٹارگٹ جنوبی پنجاب ہے وہاں ہیوی ویٹ امیدوار بھی ہیں اور جوڑ کے ذریعے ان کی تعداد میں اضافے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں کبھی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت ہوا کرتی تھی۔ لہذا اب بھی ان کا وجود کسی نہ کسی صورت میں یہاں موجود ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی قیادت اسی لیے پنجاب میں سب سے زیادہ فوکس کر رہی ہے کہ ماضی کی طرح صوبہ میں حکومت نہ بھی بنے لیکن ایسے حلقے جہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہو سکتے ہیں وہ 15 قومی اور 30 صوبائی نشستیں جیت کر وفاق میں دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت اور پنجاب میں ن لیگ کے ساتھ مل کر پہلے کی طرح مشترکہ حکومت بنائی جا سکے۔‘
پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کتنا امکان؟
ترجمان مسلم لیگ ن پنجاب عظمیٰ بخاری نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتیں انتخابات الگ اور اپنے اپنے پارٹی نشان پر لڑیں گی۔ اس لیے ن لیگ کسی کے ساتھ باقاعدہ انتخابی اتحاد نہیں کرے گی۔
’ابھی تک کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہم اپنے امیدوار ہر حلقہ میں دے رہے ہیں۔ البتہ قیادت میں مشاورت جاری ہے کہ اگر پیپلز پارٹی سے پنجاب میں انتجابی اتحاد کرنا بھی ہو تو وہ چند نشستوں کی حد تک ہو گا، لیکن ابھی تک اس کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔‘
حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں ان نشستوں پر ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کرے گی جہاں پارٹی کے مرکزی رہنما الیکشن لڑتے ہیں۔
’اور اس کے بدلے میں جہاں ن لیگ کی مرکزی قیادت الیکشن لڑ رہی ہو گی پیپلز پارٹی اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ قائد اعظم خاندانی جماعت اور پریشر گروپ سے اب باقاعدہ سیاسی جماعت بننے جا رہی ہے۔
’اب چوہدری سرور کو ق لیگ کی صدارت دی جا رہی ہے، اسی طرح دیگر مرکزی عہدوں پر بھی موثر سیاسی لوگ لگائے جا رہے ہیں۔
’ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے انتخابی اتحاد کا امکان سینٹرل پنجاب میں ہے جہاں ہم ان کو ساتھ ملا کر چل سکتے ہیں، لیکن ابھی حتمی فارمولا طے نہیں ہوا۔‘
پاکستان تحریک انصاف سے کسی قسم کے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات کو رد کرتے ہوئے حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا: ’ان (پی ٹی آئی) کی قیادت سیاسی رویہ نہیں رکھتی، نہ کسی کے ساتھ چلنے یا کسی کو ساتھ چلانے کی اہلیت رکھتی ہے۔‘
تاہم انہوں نے دعوی کیا کہ تحریک انصاف کے کئی اراکین اسمبلی پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں، جو پی ٹی آئی کے بجائے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
’جلد ہی ان کے نام بھی سامنے آجائیں گے۔ ہم ایسے امیدواروں کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں جو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بات چیت سب سے جاری ہے فیصلہ مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔‘
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں راولپنڈی سے راجہ پرویز اشرف، جنوبی پنجاب سے یوسف رضا گیلانی، مخدوم احمد محمود جیسے مضبوط سیاسی خاندان اور امیدوار پیپلز پارٹی کے پاس موجود ہیں، جن کی کامیابی کے امکان کو یقینی بنانے کے لیے پیپلز پارٹی ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی۔
انہوں نے کہا: ’اگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے ق لیگ کے امیدواروں کو بھی کامیاب کرانے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے، تو متعدد نشستوں پر گجرات اور بہاولپور میں ان کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان موجود ہے۔‘
ان کے بقول: ’اس بار سب سے زیادہ دلچسپ مقابلہ وہاں ہو گا جہاں پی ٹی آئی سے چوہدری پرویز الہی گروپ کے امیدوار اور ق لیگ کے امیدوار مد مقابل ہوں گے۔
’لہذا پرویز الہی گروپ کے امیدواروں کو شکست دینے کے لیے ہو سکتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر ق لیگ کے امیدواروں کا ساتھ دیں۔‘
سلمان غنی کے مطابق، ’سیاسی اتار چڑھاؤ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد تک پہنچنے کا راستہ پنجاب سے ہی ہے، جو یہاں زیادہ نشستیں لے گا وہ اقتدار حاصل کرے گا۔‘
’لیکن پنجاب میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اصل مقابلہ آپس میں نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ساتھ ہو گا۔‘