لاہور ہائی کورٹ نے جمعے کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی چھ مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو انہیں 24 مارچ تک گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔
ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم اور فاروق حیدر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعے کی شام نو مقدمات میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو آج (جمعے کی) شام ساڑھے پانچ بجے تک عدالت میں پیش ہونے کی مہلت دے دی تھی، جس کے بعد عمران خان خود عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ ’جن مقدمات میں ضمانت بنتی ہے انہی میں دی جائے گی۔‘ جس کے بعد عدالت نے نو مقدمات میں سے چھ میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔
دوران سماعت عمران خان نے عدالت سے کہا کہ ’مجھ پر 94 مقدمات ہیں، چھ مزید ہو گئے تو سینچری پوری جائے گی اور یہ میری نان کرکٹنگ سینچری ہو گی۔‘
عمران خان کے اس بیان پر عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔
لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی نو مقدمات میں سے چھ میں 24 مارچ جبکہ دیگر تین مقدمات میں 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران کے وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے پولیس کو انہیں کل یعنی ہفتہ کے روز تک گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے جمعے کو توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق سماعت کے آغاز میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے وارنٹ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے بیان حلفی سیشن جج کی عدالت میں پیش کیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’قانون کے آگے سب برابر ہیں۔ بیان حلفی ایک قانونی معاملہ ہے جو عدالت کے سامنے بیان کے مترادف ہے۔ اگر اس کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کے نتائج ہوں گے اور پھر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔‘
اس پر وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ ’یہ بھی اعتراض تھا کہ جو معاملہ پہلے ہی طے ہو چکا ہے وہ دوبارہ کیسے سنا جا سکتا ہے؟ ٹرائل کورٹ کو کہا تھا کہ وہ بیان حلفی کے معاملے کو دیکھے، جو اس سے مطمئن نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان خود رضاکارانہ طور پر عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ بیان حلفی نہ صرف موجود ہے بلکہ ایک اور درخواست بھی دی ہے اور انتظامیہ کو سکیورٹی فراہم کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔‘
وکیل نے کہا کہ بیان حلفی کے ساتھ ایسے اقدامات بھی کیے جس سے پتہ چلے کہ عمران خان پیش ہونا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ اب عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں اور یقین دہانی کروا رہے ہیں؟‘
اس دوران وکیل خواجہ حارث نے عمران خان کی ہفتہ کو حاضری سے متعلق بیان حلفی جمع کروایا۔
بعد ازاں خواجہ حارث نے عمران خان کا ہفتہ کو ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش ہونے کی زبانی یقین دہانی کروائی۔ عدالت نے فریقین کو نوٹسسز جاری کرتے ہوئے 21 مارچ تک جواب طلب کیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کو کل عدالت پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس موقع پر ضلعی انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس سکیورٹی مہیا کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو ہفتہ تک گرفتار کیے جانے سے روک دیا ہے۔ چیف جسٹس نے اس حوالے سے ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’عمران خان یقینی بنائیں کہ ان کی عدالت میں پیشی پر امن و امان کی صورت حال پیدا نہ ہو۔‘
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان کو آج (جمعے کی) شام ساڑھے پانچ بجے تک عدالت میں پیش ہونے کی مہلت دے دی۔
نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے عمران خان کی زمان پارک سے ہائی کورٹ آنے تک کی درخواست منظور کرتے ہوئے آئی جی پنجاب کو انہیں (عمران خان کو) لاہور ہائی کورٹ کی عمارت تک پہنچنے میں سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت پانچ بجے کرنے کا فیصلہ سنایا اور چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف درج تمام مقدمات کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔
اس سے قبل
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری فواد حسین نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ ان کی چیف سیکریٹری پنجاب سے ملاقات ہوئی جس میں تین اہم معاملات پر گفتگو ہوئی جن میں عمران خان کی سکیورٹی سر فہرست تھی۔
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باعث لاہور میں امن قائم ہو سکا اور معصوم زندگیاں بچ گئیں۔
جمعے کو لاہور ہائی کورٹ میں چوہدری فواد حسین کی درخواست پر سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں ہوئی، جہاں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کی جماعت نے اتوار کی بجائے پیر کو جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے محکمہ داخلہ کی کارروائی سے متعلق درخواست منظور نہ کی جائے۔
اس موقع پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا: ’جس نے بھی زیادتی کی ہے کیمرے موجود ہیں ان کو سامنے لایا جانا چاہیے۔ دونوں اطراف میں سے جس کی بھی زیادتی ہے کارروائی ہونا چاہیے۔‘
فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا: ’ہم چاہتے ہیں پولیس کی جانب سے زیادتی کرنے والوں کےخلاف کارروائی ہو۔
’عمران خان کو لاہور ہائی کورٹ تک محفوظ طریقے سے آنے کی اجازت دی جائے، ہم نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواستیں دائر کردی ہے۔‘
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ تک رسائی کی اجازت کی درخواست آنے کی صورت میں عدالت جائزہ لے گی۔
عدالت میں موجود آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے موقف اختیار کیا کہ ’سرچ وارنٹ آنے کے بعد ہمیں قانونی کارروائی کی اجازت دی جائے۔ اگر سرچ وارنٹ آتا ہے تو ان کی کمیٹی کو عمل درآمد کی ہدایت کی جائے۔‘
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا: ’قانون میں آپ کے تمام تحفظات کا حل موجود ہے۔ جو مہذب دنیا میں ہوتا ہے معاملہ عدالت کے سامنے لایا جائے۔ کنٹینرز سڑکوں پر لگانے کے لیے نہیں بلکہ ایکسپورٹ کے لئے استمال کیے جانا چاہیے۔‘
اس پر فواد چوہدری بولے کہ انہوں نے جلسے جلوسوں کے لیے پانچ دن پیشگی اجازت لینے کی غرض سے چیف سیکرٹری سے اتفاق کیا ہے، جبکہ پولیس نے ایک مقدمے میں 500 اور دوسرے مقدمے میں 2500 نامعلوم افراد کو شامل کر لیا ہے۔
’یہ تو پورے شہر کو جیل میں ڈال دیں گے۔ جن کےخلاف کارروائی کرنا ہے کیمروں سے شناخت کرکے انہیں بھی قانونی تحفظ کا موقع ملنا چاہیے۔‘
فواد چوہدری کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ ’میں عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ عمران خان عدالت پیش ہوں گے۔ جس پتہ پر سمن آئیں گے تعمیل کنندہ اسی ایڈریس پر جائے گا۔ اگر مذکورہ ملزم اس پتہ پر نہ ہو تو نوٹس چسپانگی کےبعد پتہ کی تبدیلی کے لئے عدالت کو آگاہ کرےگا۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ نوٹس کی تعمیل کے لیے پولیس اور رینجرز کا سکواڈ چلا جائے۔‘
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ’جو کچھ آپ بتا رہے ہیں وہ اس صورت میں ہے جب تعمیل کنندہ گھر تک پہنچ جائے۔ یہاں تو تعمیل کنندہ گھر تک پہنچ ہی نہیں پا رہا۔ کسی بھی مہذب ملک میں ایسا نہیں ہوتا جو کچھ یہاں ہوا ہے۔‘
آئی جی پنجاب نے سوال اٹھایا کہ ’وارنٹ گرفتاری کےبعد کیا ایس ایس پی یا پولیس افسر رہائشی پتے تک جا سکتے ہیں یا نہیں آگاہ ہونا چاہیے؟‘
جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ ’کسی خاص کیس کی بات نہیں کر رہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ عدالتی حکم کی تکیمل نہیں ہو رہی، عدالت نہیں چاہتی کہ مستقبل میں ایسا ناخوشگوار واقع دوبارہ پیش آئے۔
’عدالت چاہتی ہے مل بیٹھ کر آپ ایس او پیز طے کریں۔ دو مقدمات میں تین ہزار نامعلوم بندوں کی شناخت کیسے ہو گی؟‘
اس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ’شناخت کے لیے ہمارا پورا نظام موجود ہے، ہمارے پاس تصاویر، ویڈیوز، جیو فینسگ، آڈیو ثبوت موجود ہیں۔ جو کچھ ہو گا عدالت کے سامنے رکھا جائے گا۔‘
عدالت نے دریافت کیا کہ ان (دوسری پارٹی) کی تسلی کیسے ہو گی؟ کیونکہ یہ تو خاص کیس ہے۔
آئی جی پنجاب دوبارہ کہا: ’سب کچھ میرٹ پر ہو گا لیکن میں اجازت نہیں دے سکتا کہ کسی کو تفتیشی افسر پر اثر انداز ہونے دیا جائے۔‘
جج نے ریمارکس دیے ’عدالت کا تجربہ ہے کہ نامعلوم میں جس کو مرضی ڈال دیا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا: ’ہم نے فوکل پرسن مقرر کر دیے ہیں لیکن روز صبح اٹھتے ہیں نیا مقدمہ درج ہوتا ہے، عمران خان پر 85 مقدمات بنا دیے گئے ہیں۔‘
آئی جی پنجاب نے جواب دیا: ’یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلے شناخت کی جائے اور انہیں ضمانت کا موقع دیا جائے۔‘
جسٹس طارق سلیم شیخ نے فریقین کو آپس میں معاملات طے کر کے تین بجے تحریری طور پر عدالت کے رو برو پیش کرنے کا حکم دیا۔
اسلام آباد کی سیشن عدالت کے وارنٹ گرفتاری میں بھی عمران خان نے حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے: ’وہ عدالت میں پیش ہو کر اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے گرفتاری کا خدشہ ہے، عدالت ساتوں مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں منظور کی جائیں۔‘
آئی جی پنجاب کی جانب سے بھی لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں موقف اپنایا گیا کہ پولیس اسلام آباد کی ٹرائل عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے زمان پارک پہنچی۔ تو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، پتھراؤ سے متعدد پولیس افسران اور اہلکار زخمی ہوئے۔
’پی ٹی آئی کارکنوں نے پولیس پر پیٹرول بم پھینکے جس سے سرکاری گاڑیوں کو آگ لگی۔ کارکنوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور قانون کو ہاتھ میں لیا۔ زمان پارک میں مشتبہ تنظیموں کے پولیس کو مطلوب افراد کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ قانون ہاتھ میں لینے والے کارکنوں کی گرفتاری مطلوب ہے جو زمان پارک میں چھپے بیٹھے ہیں۔ پولیس کو زمان پارک تک رسائی نہ ہونے سے شواہد بھی جمع نہیں کیے جا سکتے۔ عدالت ملزموں کی گرفتاری اور شواہد جمع کرنے کی اجازت دے۔‘