جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کی سینیئر جج مسرت ہلالی کو یکم اپریل سے بطور قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرنے کا اعلامیہ جاری کر دیا ہے، جو نیا اعلامیہ آنے تک غیر معینہ مدت کے لیے اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دیں گی۔
مسرت ہلالی کی تعیناتی کا یہ اعلامیہ 29 مارچ کو جاری کیا گیا تھا۔
30 مارچ بروز جمعرات چیف جسٹس قیصر رشید اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے، جس کے بعد سینیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر موجود جسٹس روح الامین 31 مارچ کو ایک دن کے لیے چیف جسٹس بنیں گے اور پھر یکم اپریل کو مسرت ہلالی عہدے کا حلف اٹھائیں گی۔
پشاور ہائی کورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جسٹس مسرت ہلالی تقریباً دو دہائیوں سے پشاور ہائی کورٹ کے ساتھ منسلک ہیں اور اس دوران انہوں نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور کئی تاریخی اور شاندار فیصلے کیے۔
’ایک تاریخی کام انہوں نے 2022 میں پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کی سیکشن دس کے بارے میں کیا، جس میں انہوں نے پاکستان کی خواتین کو غیر ملکی شہری سے شادی کی صورت میں ان کے شوہر کو پاکستانی سٹیزن شپ دینے کا اختیار دیا۔
’اس سے قبل پاکستان میں صرف مردوں کو اجازت تھی کہ اگر وہ کسی دوسرے ملک کی خاتون سے شادی کرتے تو اس خاتون کو پاکستان کی شہریت مل جاتی تھی۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا۔‘
مہوش محب کے مطابق: ’مسرت ہلالی کے اس فیصلے نے فیملی سسٹم کو بچایا، کیوں کہ اس سب کے بیچ جہاں میاں بیوی اکھٹے نہیں ہوسکتے تھے، وہیں ان کے بچے بھی رُل رہے تھے۔
’یہ بہت بڑا کارنامہ تھا اور اس کے بعد سے کئی خواتین جن کے شوہر ایران، افغانستان، فلسطین اور دوسرے ممالک میں تھے، وہ ایک ہوئے۔‘
پشاور ہائی کورٹ کی وکیل مہوش کاکاخیل نے بتایا کہ ’پرانے وقتوں میں مرد وکلا کے مقابلے میں خواتین وکلا کا بار روم بہت چھوٹا ہوتا تھا، مسرت ہلالی نے اس پر خصوصی توجہ دی اور مردوں کے بار روم جتنا بڑا احاطہ ان کو دیا، جس میں خواتین کے لیے نہ صرف مسجد بنوائی، بلکہ شادی شدہ خواتین وکلا کے بچوں کے لیے ایک ڈے کیئر سینٹر بنانے سمیت ان کے لیے ایک خصوصی کرسی بھی بنوائی۔
’چوں کہ بار روم میں چائے اورفائل لانے والے مرد حضرات بھی تشریف لاتے ہیں، لہذا دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے انہوں نے ایک ایسی کرسی بنائی جس میں پردے کا انتظام تھا۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ مسرت ہلالی وہ واحد جج ہیں جنہوں نے جونیئر وکلا کو خود اعتمادی دی اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسرت ہلالی کے حوالے سے وکلا میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ کورٹ ڈیکورم کے معاملے میں سختی سے کام لیتی ہیں اور وکلا کو صاف ستھرے اور مکمل یونیفارم میں آنے کی تاکید کرتی ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسرت ہلالی کو لفظ ’میڈم‘ سخت ناپسند ہے اور اس پر وہ کئی وکلا کو ڈانٹ چکی ہیں۔
’اس کی وجہ وہ یہ پیش کرتی ہیں کہ بینچ پر بیٹھے سب جج ایک جیسے ہوتے ہیں لہذا انہیں ان کی صنف سے پکارنا دونوں میں فرق کے مترادف ہوتا ہے۔ ان کی اسی تاکید کی وجہ سے وکلا فائل پر باقاعدہ ’مائی لارڈ‘ لکھ کر جاتے ہیں لیکن اکثر جیسے ہی وہ جسٹس ہلالی کے سامنے جاتے ہیں ان کے منہ سے میڈم نکل جاتا ہے۔‘
گگیانی نے کہا کہ مسرت ہلالی کے چیف جسٹس بننے کے بعد پاکستان اور دنیا کو ایک پیغام گیا ہے کہ اگر موقع دیا جائے تو خیبر پختونخوا کی خواتین بھی ذہانت اور قابلیت میں کسی سے کم نہیں ہیں۔
پیشہ ورانہ زندگی
جسٹس مسرت ہلالی یکم اپریل سے پاکستان کی دوسری اور خیبر پختونخوا کی پہلی قائم مقام چیف جسٹس کا اعزاز حاصل کریں گی۔
ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ خیبر پختونخوا کی پہلی قائم مقام جج ہونے کے ساتھ پاکستان کی پہلی ایڈوکیٹ جنرل رہ چکی ہیں۔
وہ پہلی وفاقی محتسب برائے جنسی ہراسانی بھی رہ چکی ہیں اور پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں بطور نائب صدر، سیکریٹری اور جنرل سیکریٹری کے عہدوں پر منتخب عہدیدار رہ چکی ہیں۔