بینچ ہی قبول نہیں تو فیصلہ کیسے قبول ہو گا: نواز شریف

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن مذاکرت نہیں کرتے تو سپریم کورٹ اپنا آئینی کردار ادا کرے گی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جمعے کو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست دوسری مرتبہ مسترد کرتے ہوئے سماعت پیر کی صبح تک ملتوی کر دی۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی سیکرٹریز برائے دفاع اور خزانہ کو طلب کیا ہے۔

دو صوبوں میں الیکشن کے التوا کے خلاف دائر درخواست کی سماعت تین رکنی بینچ کر رہا ہے، جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ 

جمعے کی دوپہر سماعت دوبارہ شروع ہونے پر پاکستان بار کونسل کی مجلس عاملہ کے سربراہ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس بلا لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کے حوالے سے وہ سوچ رہے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بار کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ معاملات سامنے آئے ہیں ’لیکن ہم تمام ججز کے درمیان اتفاق اور باہمی عزت ہے۔

’کچھ ہائپ بنائی جا رہی ہے جس کو میڈیا اور پریس کانفرنسز کے ذریعے ہوا دی جا رہی ہے۔ کچھ افراد مختلف ججز پر تنقید کر رہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔‘

چیف جسٹس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر بیرونی تاثرات نہ ہوتے تو ہم پرامن زندگی گزارتے، جس پر بار کونسل کے نمائندے نے جواب دیا ’جو چیزیں باہر آئیں ہم اس وجہ سے آئے۔‘

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ درجہ حرارت کو نیچے آنے کی ضرورت ہے۔ 

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اسے کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟‘ 

انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ آئین کو فوقیت دی، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز دفاتر میں واپس آ گئے۔

چیف جسٹس نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1990 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آ سکے تھے، کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں جس کی وجہ ان کا عوام کا نمائندہ ہونا ہے۔


بینچ ہی قبول نہیں تو فیصلہ کیسے قبول ہو گا: نواز شریف

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر دو صوبوں میں الیکشن سے متعلق کیس سننے والا سپریم کورٹ کا بینچ ہی قبول نہیں تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہو گا؟‘

انہوں نے زور دیا کہ ’کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنایا جائے جس کا فیصلہ سب کے لیے قابل قبول ہو گا۔‘

انہوں نے سوال کیا کہ ’تین رکنی بینچ کی کیا مصلحت ہے؟ تین رکنی بینچ کیوں کیس سن رہا ہے؟ اس کے پیچھے کیا عوام ہیں؟‘

’قوم آنکھیں کھولے کیونکہ قوم کو ان ہی بینچوں کے فیصلوں  نے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔‘

سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ قوم پر مرضی کے فیصلے ٹھونسا چاہتے ہیں لیکن امید ہے اللہ ایسے فیصلوں سے بچائے گا۔‘ انہوں نے کہا کہ صرف ایک شخص کے لیے اس طرح کے فیصلے ہو رہے ہیں۔

’ثاقب نثار اور دوسرے سابق جج بتائیں گے کہ نواز شریف کو کیوں نکالا گیا؟ کیا اس بات پر از خود نوٹس نہیں بنتا کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی؟‘

دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کو دوپہر ایک بجے لاہور میں اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس طلب کر لیا۔

اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔


حکومت اور اپوزیشن مذاکرت نہیں کرتے تو آئینی کردار ادا کریں گے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا دو معاملات ہیں، ایک 20 ارب روپے کا بندوبست کرنا جبکہ دوسرا سیکورٹی کی فراہمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، اسے ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو سماعت میں کچھ روز وقفہ کر لیں گے اور اگر یہ نہیں ہوتے تو آئینی کردار ادا کریں گے۔‘

اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ نو رکنی بینچ کے دو اراکین نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انہیں کس نے بتایا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، جس کے بعد اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ انہیں بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، وہ چاہتے تو تمام ججز کو تبدیل کر سکتے تھے۔

’اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیویسی میں مداخلت ہوگی۔ ججز تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ججز نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ ’آڈیو لیک کی بنیاد پر جج کو کیسے نشانہ بنایا گیا۔ میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔

’ججز کی بیگمات اور ان کے بچوں کے بارے میں باتیں کی گئیں، ہم بھی انسان ہیں۔ میں پچھلے دو سالوں میں اس تجربے سے گزرا ہوں۔ جسٹس اقبال حمید کو استعفی سے روکا تھا۔ انہوں نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔‘


امید ہے چیف جسٹس ’اپنے گھر میں آرڈر قائم کریں گے:‘ وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے توقع ظاہر کی ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ کا اجلاس بلا کر دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق درخواست پر ’اپنے گھر میں آرڈر قائم کریں گے۔‘

سپریم کورٹ کی عمارت کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس وقت چیف جسٹس ایک سوچ کے حامل ہیں جبکہ کچھ دوسرے جج صاحبان اس مسئلے کو کسی دوسرے طریقے سے سلجھانا چاہتے ہیں۔

’ہم امید کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس اپنے ساتھی ججوں سے مشورہ اور انہیں اعتماد میں لے کر آگے جانے کا فیصلہ کریں گے۔‘

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے ہی ایک جج نے چیف جسٹس کو ایسا ہی مشورہ دیا ہے۔

’میری اور وفاقی حکومت کی بھی رائے یہی ہے کہ اس مسئلے پر فل کورٹ کا اجلاس بلایا جائے اور چیف جسٹس اپنے گھر میں آرڈر لے کر آئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ وکلا تنظیموں نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان سے فل کورٹ کے اجلاس کی استدعا کی ہے۔

’لیکن چیف جسٹس نے تین رکنی بینچ سے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔‘

وفاقی وزیر قانون کے خیال میں معاملات بحران کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں اور پہلے سے معاشی اور سیاسی بحرونوں مین گھرےئ ملک کے لیے آئینی بحران اچھا شگون نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں کل اس تمام صورت حال سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گی۔


پی ٹی آئی کی الیکشن میں پرامن رہنے کی یقین دہانی

پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں الیکشن کے دوران پرامن رہنے اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی تحریری یقین دہانی جمع کرائی ہے۔

تحریری یقین دہانی میں کہا گیا کہ اگر الیکشن میں کوئی خلاف قانون کام نہیں ہوتا تو پارٹی پرامن رہے گی۔

پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ صرف ایسے مقامات پر جلسے اور ریلیاں ہوں گی جہاں سکیورٹی کی یقین دہانی ہو۔


اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس کی بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

’عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا۔ اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جا کر اس جج کے خلاف پہلے شواہد کا جائزہ لیں۔‘


سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس ناقابل سماعت ہے: جسٹس یحییٰ آفریدی

جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے الیکشن التوا کیس میں تفصیلی نوٹ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ ازخود نوٹس اور آئینی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔

انہوں نے لکھا: ’سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہو تو مداخلت نہیں کی جا سکتی۔

’انتخابات کیس میں فریقین سیاسی موقف تبدیل کرتے رہے ہیں، سیاسی معاملہ عروج پر ہو تو عدالت کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔‘

جسٹس آفریدی نے نوٹ میں مزید کہا کہ وہ خود کو بینچ کا حصہ رکھنے کا معاملہ چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں اور خود کو بینچ کا حصہ برقرار رکھنا مناسب نہیں سمجھتے۔ 

انہوں نے کہا ’دوران سماعت دی گئی آبزرویشن ہائی کورٹ میں مقدمہ کو متاثر کر سکتی ہے۔‘


چار رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا

آج صبح جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چار رکنی بینچ میں شامل جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس سننے سے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس بینچ میں میری ضرورت نہیں۔ مجھ سے آرڈر لکھواتے وقت کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکم نامہ کمرہ عدالت میں بھی نہیں لکھوایا گیا، تاہم عدالت میں فیصلے کے اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘

سماعت کے آغاز پر جب اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ’سننے سے قبل جسٹس جمال خان مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی ججز آئین کی بقا چاہتے ہیں، جسٹس امین الدین خان کے فیصلے کے بعد حکم نامے کا انتظار تھا، انہیں عدالتی حکم نامہ کل گھر میں موصول ہوا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل کو حکم نامہ پڑھ کر سنانے کا کہا جس کے بعد انہوں نے حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے دوبارہ بات کرتے ہوئے کہا ’حکم نامے پر میں نے الگ سے نوٹ تحریر کیا ہے۔ میں بینچ کا رکن تھا، سمجھتا ہوں میں بینچ میں مس فٹ ہوں اور اس بینچ میں میری ضرورت نہیں۔

’مجھ سے آرڈر لکھواتے وقت کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ میری دعا ہے اس کیس کا ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو۔‘

اس دوران چیف جسٹس نے جسٹس جمال مندوخیل کو بات کرنے سے ٹوکتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’بینچ کی تشکیل سے متعلق جو بھی فیصلہ ہوگا کچھ دیر بعد عدالت میں بتا دیا جائے گا۔‘


سپریم کورٹ کا سرکلر

مقدمے کی سماعت کے آغاز سے کچھ منٹ قبل سپریم کورٹ کی جانب سے سرکلر جاری کیا گیا جس میں حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے مقدمے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم لارجر بینچ پر لاگو نہیں ہوتا۔

سرکلر میں کہا گیا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کا فیصلہ دیگر بینچز پر لاگو نہیں ہوتا۔ حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا، اس کیس میں از خود نوٹس کی کارروائی غیر قانونی ہے۔‘

سرکلر کے مطابق: ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کا فیصلہ دو - ایک کے تناسب سے ہے۔ پانچ رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے کا اختیار واضح کر چکا، رجسڑار سپریم کورٹ سرکلر سے متعلق کیس کے فریقین کو آگاہ کریں۔‘


سیاسی رد عمل

وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بینچ ٹوٹنے کے بعد ردعمل میں سپریم کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انصاف کی آخری منزل کی جانب تمام سائلین اور سیاست دان دیکھ رہے ہیں۔

’آج اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عدلیہ کے کلچر میں سیاست دانوں والی طرز کی باتیں ہو رہی ہیں۔‘

انہوں نے اس مقدمے کی سماعت کے لیے کہا کہ پہلے دن سے فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما، وکیل اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے عدالت عظمی میں تقسیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاسی اور آئینی بحران کے خاتمے کے لیے عدالت کا متفق ہونا صروری ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ’ساری قوم چیف جسٹس کے ساتھ کھڑی ہے وہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔‘

یک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’آج شام عمران خان کی کور کمیٹی کا اجلاس ہے اس میں مشورہ دوں گا۔ میں اداروں سے تصادم کا حامی نہیں ہوں میں عمران خان کو مشورہ دوں گا۔‘

ان کے مطابق: ’اس قسم کا آج تک کوئی آئینی بحران نہیں دیکھا۔‘


گذشتہ روز کی سماعت

جمعرات کو سماعت کے آغاز پر جسٹس امین الدین کی معزرت سامنے آئی تھی جس کے بعد پانچ رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا اور سماعت جمعے تک ملتوی کر دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کی جاری کردہ کاز لسٹ کے مطابق جمعے کو کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر بندیال کی سربراہی میں چار رکنی بینچ کو کرنی تھی اور ایسا ہی ہوا۔

بینچ میں پہلے سے موجود جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے تاہم جمعے کو جسٹس جمال مندوخیل نے سماعت سے معزرت کر لی۔

عدالتی عملے نے جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران حکم نامے کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’مقدمہ اس بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے گا جس میں جسٹس امین الدین خان نہ ہوں۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین پر مشتمل بینچ نے بدھ کو فیصلہ دیا تھا کہ جب تک عدلتی اصلاحات کے معاملے پر قانون سازی نہیں ہوتی 184/3 کے تحت تمام کیسز موخر کیے جائیں۔ اسی فیصلے کی بنیاد پر جسٹس امین الدین نے سماعت سے معزرت کی تھی۔

انتخابات کے معاملے پر تحریک انصاف کی یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ہی دائر کی گئی تھی۔


جسٹس فائر عیسیٰ کے فیصلے میں مزید کیا تھا؟

گذشتہ روز سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’سپریم کورٹ رولز میں ترمیم تک از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں ہونا چاہیے، جب تک بینچز کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم نہیں ہوتی تمام مقدمات کو موخر کیا جائے۔‘

یہ فیصلہ انہوں نے حفاظ قرآن کو میڈیکل ڈگری میں 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران دو، ایک کے تناسب سے دیا تھا۔

اس تحریری فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے از خود نوٹس کے زیر سماعت مقدمات کو موخر کرنے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ جسٹس شاہد وحید نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

دو، ایک کے تناسب سے جاری کیے جانے والے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بینچ کی تشکیل کے رولز کے مطابق خصوصی بینچز کا تصور نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصلے کے مطابق: ’چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کہ بینچ کی تشکیل کے بعد کسی جج کو بینچ سے الگ کرے۔‘

فیصلے میں لکھا گیا کہ ’سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے۔ آئین چیف جسٹس کو اپنی مرضی کے خصوصی بینچ بنا کر اپنی مرضی کے ججز شامل کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔‘

اس فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ججز کا احتساب ہونا چاہیے۔ بینچ کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا طریقہ کار صاف شفاف ہونا چاہیے۔‘

12 صفحات پر مشتمل فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’آئین اور رولز چیف جسٹس کو سپیشل بینچ تشکیل دینے کی اجازت نہیں دیتے، آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، لیکن سوموٹو مقدمات مقرر کرنے اور بینچ کی تشکیل کے لیے رولز موجود نہیں ہیں۔ رولز کی تشکیل تک اہم آئینی اور ازخود مقدمات پر سماعت مؤخر کی جائے۔‘

اس کے علاوہ فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں فیصلوں کے سیاست اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ آئین میں سوموٹو نامی لفظ کہیں موجود ہی نہیں ہے۔

فیصلے کے مطابق: ’ججز نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرنے کا حلف لے رکھا ہے۔ ججز دوسرے لوگوں کی سزا یا جزا کا فیصلہ کرتے ہیں، ججز کو احتساب سے دور رکھنا اخلاقی، قانونی اور مذہبی لحاظ سے غلط ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان